آیات 20 - 24
 

وَ فَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ اور طرح طرح کے میوے لیے جنہیں وہ پسند کریں،

وَ لَحۡمِ طَیۡرٍ مِّمَّا یَشۡتَہُوۡنَ ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ اور پرندوں کا گوشت لیے جس کی وہ خواہش کریں،

وَ حُوۡرٌ عِیۡنٌ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ اور خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی،

کَاَمۡثَالِ اللُّؤۡلُوَٴ الۡمَکۡنُوۡنِ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ جو چھپا کر رکھے گئے موتیوں کی طرح (حسین) ہوں گی۔

جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ یہ ان اعمال کی جزا ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ فَاکِہَۃٍ: یہ نو عمر لڑکے پسند کے میوے اور پرندوں کا گوشت پیش کریں گے۔ ان دو آیتوں میں میوؤں کے بعد پرندوں کے گوشت کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ ماکولات میں پھلوں کو پہلے کھایا جائے۔ اس کے بعد پرندوں کے گوشت کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ پرندوں کا گوشت باقی جانوروں کے گوشت کے مقابلے میں طبع انسانی کے ساتھ زیادہ سازگار ہے۔ یہ ایک امکانی صورت ہے۔ قطعی تفسیر نہیں ہے۔

۲۔ یَتَخَیَّرُوۡنَ اور یَشۡتَہُوۡنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں خواہشات کی تکمیل کے دو ذرائع موجود ہیں: ایک خدمت گزار لڑکوں کے ذریعے۔ دوسرا اپنے ارادے سے چونکہ جنت میں انسان کا ارادہ نافذ ہو گا۔ جس چیز کی خواہش کی، تیار مل جائے گی۔

۳۔ اور ان سابقین کے لیے بڑی آنکھوں والی حوریں بھی ہوں گی۔

۴۔ کَاَمۡثَالِ اللُّؤۡلُوَٴ الۡمَکۡنُوۡنِ: موتیاں جب صدف میں محفوظ اور پوشیدہ ہوتی ہیں اور کسی ہاتھ نے انہیں مس نہیں کیا ہوتا ہے تو انتہائی صفائی، پاکیزگی اور زیبائی میں ہوتی ہیں۔

۵۔ جَزَآءًۢ: یہ سب نعمتیں بلا استحقاق انہیں نہیں ملتیں بلکہ ان اعمال کی جزا ہیں جو انہوں نے دنیا کی زندگی میں تلخیاں برداشت کرکے انجام دیے ہیں۔


آیات 20 - 24