آیات 17 - 18
 

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیۡمٍ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اہل تقویٰ تو یقینا جنتوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔

فٰکِہِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمۡ رَبُّہُمۡ ۚ وَ وَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ﴿۱۸﴾

۱۸۔ ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا کیا ہے اس پر وہ خوش ہوں گے اور ان کا رب انہیں عذاب جہنم سے بچا لے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ: قرآن مجید ہمیشہ کافرین کے عذاب اور جہنم کے ذکر کے بعد مومنین کا حال بھی بیان فرمایا کرتا ہے کہ وہ جنت میں نعمتوں میں ہوں گے۔

۲۔ فٰکِہِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمۡ: فٰکِہِیۡنَ کے معنی نعمتوں میں مسرت اور خوشحالی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

وَّ نَعۡمَۃٍ کَانُوۡا فِیۡہَا فٰکِہِیۡنَ (۴۴ دخان: ۲۷)

اور نعمتیں جن میں وہ مزہ لیتے تھے۔

وَ اِذَا انۡقَلَبُوۡۤا اِلٰۤی اَہۡلِہِمُ انۡقَلَبُوۡا فَکِہِیۡنَ ( ۸۳ مطففین:۳۱)

اور جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تو اتراتے ہوئے لوٹتے تھے۔

ان دونوں آیتوں میں فَکِہِیۡنَ مسرت کے معنوں میں آیا ہے۔

یہاں دو نعمتوں کا ذکر ہے: ایک حصول جنت دوسری جہنم سے نجات۔ عالم آخرت میں اہل جنت جب جہنم والوں کی حالت کا معائنہ کریں گے تو انہیں جنت کی نعمتوں کی قدر زیادہ ہو جائے گی اور اس جہنم سے نجات کو جنت سے کم درجہ کی نعت تصور نہیں کریں گے۔

فضائل: مجاہد، عبد اللّٰہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں:

ان المتقین فی جنٰت و نعیم خاص کر علی، حمزہ، جعفر اور فاطمہ کی شان میں ہے۔

’’خاص کر‘‘ کی تعبیر اس لیے ہے کہ آیت کا اطلاق ہر متقی پر ہوتا ہے لیکن ان ہستیوں کو اس کے مصداق اول قرار دیا گیا ہے۔

ملاحظہ حسکانی تفسیر شواہد التنزیل ذیل آیت۔ ابن شہر آشوب نے تفسیر ابو یوسف یعقوب سے یہ روایت بیان کی ہے۔ غایۃ المرام صفحہ ۴۲۲ میں بھی مذکور ہے۔


آیات 17 - 18