آیت 23
 

فَوَ رَبِّ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثۡلَ مَاۤ اَنَّکُمۡ تَنۡطِقُوۡنَ﴿٪۲۳﴾

۲۳۔ پس آسمان اور زمین کے رب کی قسم! یقینا وہ اسی طرح برحق ہے جس طرح تم باتیں کر رہے ہو۔

تفسیر آیات

اگرچہ اس آیت سے پہلی آیت میں رزق کا ذکر ہے کہ اللہ ہی تمہیں رزق دیتا ہے تاہم اس سورۃ المبارکۃ کا بنیادی موضوع دوسری زندگی یعنی عالم آخرت کا اثبات ہے۔ لہٰذا زیادہ قرین سیاق یہ ہے کہ ہم اِنَّہٗ لَحَقٌّ کی ضمیر یوم الدین کی طرف قرار دیں۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ بنے گا کہ قیامت کا آنا اس طرح حق اور حقیقت ہے جیسے تمہارا بات کرنا۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی قسم کھاتا ہے اور اپنی ذات کے مقام ربوبیت کی قسم کھا کر فرماتا ہے: قیامت کا وجود اس طرح حق اور واقعیت رکھتا ہے جیسا کہ تمہارا بولنا، بات کرنا واقعیت رکھتا ہے۔ مشہور فلسفی نے کہا تھا: میں سوچتا ہوں پس میں موجود ہوں۔ جب کہ سوچنے سے زیادہ بولنا ایک واضح حقیقت ہے کہ یوں کہنا چاہیے: میں بولتا ہوں پس میں موجود ہوں۔ اگرچہ درحقیقت انسان کے لیے سب سے واضح چیز خود اپنی ذات ہے اس لیے پہلے ’’ میں ‘‘ آتا ہے پھر ’’سوچتا ہوں‘‘ یا ’’بولتا ہوں‘‘ آتا ہے۔ البتہ اپنے وجود کے بعد سب سے زیادہ واضح چیز انسان کا بولنا، بات کرنا ہے۔

منکرین جب قیامت پر اعتراض کرتے ہوئے بولتے تو اپنی نطق پران کا ایمان ہوتا تھا۔ وہ اس لیے بول رہے تھے کہ وہ جو جملے بنا رہے ہیں ان کا کوئی مفہوم ہے اور اس مفہوم کو مخاطب سمجھ لیتا ہے۔ آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی ہے اور وہ اسے سمجھ لیتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کی آمد، سب سے زیادہ واضح ہے۔


آیت 23