آیت 80
 

اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر جا رہے ہوں۔

۱۔ اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی: یہاں اسماع (سنانا) سے مراد ہدایت ہے۔ آپ ان لوگوں کو راہ راست پر نہیں لا سکتے جن میں زندگی کے آثار نہیں ہیں۔ ان میں وہ سوجھ بوجھ نہیں ہے جو کسی بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ اسی مفہوم کی طرف اس آیت میں بھی اشارہ ہے:

لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۹)

ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔۔۔۔

لہٰذا یہاں الۡمَوۡتٰی استعارہ ہے ان لوگوں کے لیے جو حق سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور الۡمَوۡتٰی (مرنے والوں) سے مراد حقیقی مردے نہیں ہیں کہ اس سے استدلال کیا جا سکے کہ مُردوں سے خطاب درست نہیں ہے لہٰذا صحیح مسلم کی اس حدیث : ما انتم باسمع لما اقول منہم ۔ تم زندہ لوگ ان مردوں سے زیادہ میری بات سننے والے نہیں ہو، کا اس آیت سے کوئی تصادم نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔

۲۔ وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ: نہ ہی آپؐ بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں۔ الصُّمَّ (بہرے) بھی استعارہ ہے ان لوگوں کے لیے جو حق کی آواز پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

بہرے سے مراد حقیقی بہرے نہیں ہیں۔ چنانچہ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ (جب وہ پیٹھ پھر کر جا رہے ہوں) اس بات پر دلیل ہے کہ یہ لوگ حق کی آواز سننے پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی رحمت و ہدایت ان لوگوں کو شامل نہیں کرتی جو اس کے اہل نہیں ہیں۔

۲۔ حق کی آواز پر کان نہ دھرنے والے زندہ شمار نہیں ہوتے۔


آیت 80