سَیَقُوۡلُ لَکَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَتۡنَاۤ اَمۡوَالُنَا وَ اَہۡلُوۡنَا فَاسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ۚ یَقُوۡلُوۡنَ بِاَلۡسِنَتِہِمۡ مَّا لَیۡسَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ لَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ ضَرًّا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ نَفۡعًا ؕ بَلۡ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا﴿۱۱﴾

۱۱۔ صحرا نشین جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ جلد ہی آپ سے کہیں گے: ہمیں ہمارے اموال اور اہل و عیال نے مشغول رکھا لہٰذا ہمارے لیے مغفرت طلب کیجیے، یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے، کہدیجئے: اگر اللہ تمہیں ضرر پہنچانے کا ارادہ کر لے یا فائدہ پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لیے کچھ اختیار رکھتا ہو؟ بلکہ اللہ تو تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

11۔ مدینے کے اطراف میں رہنے والے ان بدوؤں کا ذکر ہے جن کو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرہ کے لیے ساتھ چلنے کا حکم دیا تھا، لیکن انہوں نے ساتھ نہ چلنے کو ترجیح دی تھی۔

بَلۡ ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ لَّنۡ یَّنۡقَلِبَ الرَّسُوۡلُ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِلٰۤی اَہۡلِیۡہِمۡ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِکَ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ ظَنَنۡتُمۡ ظَنَّ السَّوۡءِ ۚۖ وَ کُنۡتُمۡ قَوۡمًۢا بُوۡرًا﴿۱۲﴾

۱۲۔ بلکہ تم یہ گمان کرتے تھے کہ پیغمبر اور مومنین اپنے اہل و عیال میں کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا اور تم ہلاک ہونے والی قوم ہو۔

12۔ ساتھ نہ چلنے کی وجہ ان کی یہ سوچ تھی کہ اب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین واپس نہیں آ سکیں گے اور یہ خیال انہیں بہت بھلا لگ رہاتھا۔ جس کے دل میں لشکر اسلام کی تباہی کا خیال شیریں ہو وہ مسلمان کیسے ہو سکتا ہے؟

وَ مَنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ فَاِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَعِیۡرًا﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے ہم نے (ایسے) کفار کے لیے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے، وہ جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہے عذاب دیتا ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

سَیَقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ اِذَا انۡطَلَقۡتُمۡ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاۡخُذُوۡہَا ذَرُوۡنَا نَتَّبِعۡکُمۡ ۚ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّبَدِّلُوۡا کَلٰمَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا کَذٰلِکُمۡ قَالَ اللّٰہُ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَنَا ؕ بَلۡ کَانُوۡا لَا یَفۡقَہُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۵﴾

۱۵۔ جب تم غنیمتیں لینے چلو گے تو پیچھے رہ جانے والے جلد ہی کہنے لگیں گے: ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ چلیں، وہ اللہ کے کلام کو بدلنا چاہتے ہیں، کہدیجئے: اللہ نے پہلے ہی فرمایا تھا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں جاؤ گے، پھر وہ کہیں گے: نہیں بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، (دراصل) یہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔

15۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ لوگ مسلمانوں کو آسان فتوحات کی طرف جاتے دیکھ کر ساتھ چلنے کی خواہش کریں گے۔ چنانچہ چند ماہ بعد جنگ خیبر کے موقع پر ان لوگوں نے دیکھا کہ اب تو خطرے کے بغیر آسانی سے فتوحات شروع ہو گئی ہیں اور اموال غنیمت وافر مقدار میں حاصل ہونے کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں، لہٰذا ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہلے ہی حکم دیا گیا تھا کہ ان کو ساتھ نہیں لے جانا، بلکہ وہ لوگ اس کے زیادہ حقدار ہیں جنہوں نے خطرات کے دنوں میں جہاد میں حصہ لیا ہے۔ یعنی حدیبیہ میں شریک رہے۔

یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّبَدِّلُوۡا کَلٰمَ اللّٰہِ : وہ اللہ کے اس کلام کو بدلنا چاہتے ہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ خیبر کی جنگ میں صرف حدیبیہ والے شرکت کریں گے یا اس وعدے کو جھٹلانا چاہتے ہیں کہ خیبر کے غنائم صرف حدیبیہ والوں کو ملیں گے۔ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَنَا وہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ الزام بھی عائد کریں گے کہ ہماری شرکت کی ممانعت اللہ کی طرف سے نہیں ہے، بلکہ صرف حسد کی بنیاد پر ہمیں شریک ہونے نہیں دیا جا رہا ہے۔

قُلۡ لِّلۡمُخَلَّفِیۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ سَتُدۡعَوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ تُقَاتِلُوۡنَہُمۡ اَوۡ یُسۡلِمُوۡنَ ۚ فَاِنۡ تُطِیۡعُوۡا یُؤۡتِکُمُ اللّٰہُ اَجۡرًا حَسَنًا ۚ وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا کَمَا تَوَلَّیۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ آپ پیچھے رہ جانے والے صحرا نشینوں سے کہدیجئے: تم عنقریب ایک جنگجو قوم کے مقابلے کے لیے بلائے جاؤ گے، تم یا تو ان سے لڑو گے یا وہ اسلام قبول کریں گے پس اگر تم نے اطاعت کی تو اللہ تمہیں بہتر اجر دے گا اور اگر تم نے منہ پھیر لیا جیسا کہ تم نے پہلے منہ پھیرا تھا تو وہ تمہیں شدید دردناک عذاب دے گا۔

16۔ اس جنگجو قوم سے مراد یقینا وہ لوگ ہیں جن سے خود رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ لڑی ہے۔ جیسے بقول قتادہ، ثقیف، ہوازن، جنگ موتہ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ آیت کے آخر میں فرمایا: اگر تم (ان آنے والی جنگوں میں ) اطاعت کرو تو اجر ملے گا۔ اگر تم نے منہ پھیر لیا تو دردناک عذاب ہو گا۔ یہ تعبیر ان جنگوں کے لیے ہے جو رسول اللہ کی معیت میں لڑی گئی ہیں۔ ثانیاً اگر اس سے بعد از رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگیں مراد لی جائیں تو اس سے جنگ کی دعوت دینے والوں کی امامت کا کوئی ربط نہیں بنتا۔ قرآن نے بخت نصر کافر کے بارے میں کہا:

بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ ۔ (بنی اسرائیل : 5) ہم نے اپنے جنگجو بندوں کو تم (یہودیوں) پر مسلط کیا تو عِبَادًا لَّنَاۤ سے مومن ہونا ثابت نہیں ہوتا، تدعون سے امامت کیسے ثابت ہوتی ہے۔

لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبۡہُ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿٪۱۷﴾ ۞ؒ

۱۷۔ (جہاد میں شرکت نہ کرنے میں) اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ ہی لنگڑے پر کوئی مواخذہ ہے اور نہ ہی بیمار پر کوئی حرج ہے، جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اللہ اسے ایسی ہی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جو منہ موڑ لے گا اللہ اسے شدید دردناک عذاب دے گا۔

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ بتحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہو گیا، لہٰذا اللہ نے ان پر سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح عنایت فرمائی۔

18۔ ان بیعت کرنے والوں کے قلب میں جو جذبہ ایثار و قربانی موجزن تھا، اس بنا پر اللہ نے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا۔ چونکہ اصحاب بیعت اس وقت صادق الایمان، رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وفادار اور خلوص کے اعلی درجہ پر فائز تھے، اس لیے وہ اللہ کی رضایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس سے بالاتر کوئی کامیابی نہیں ہے۔ درست ہے کہ اللہ کی طرف سے سند خوشنودی عطا ہونے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا مقابلہ ان سے نہیں، بلکہ اللہ سے ہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ بیعت جنگ سے فرار نہ کرنے کا ایک عہد تھی۔ اگر بعد میں کسی نے عہد شکنی کی تو اس سے انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ان ہستیوں کی صف میں شروع سے شامل ہی نہ تھا جن سے اللہ راضی ہوا ہے۔ چنانچہ بیعت رضوان کی پہلی آیت میں بیعت کے ذکر کے بعد فرمایا: فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۔ جو اس عہد کو توڑے گا، اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا۔ چنانچہ جنگ حنین میں جب لوگ جنگ سے بھاگ گئے تو حضرت ابن عباس کو بیعت رضوان کا حوالہ دے کر بلانا پڑا۔

فَتۡحًا قَرِیۡبًا : اس قریبی فتح سے مراد فتح خیبر ہے۔

وَّ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً یَّاۡخُذُوۡنَہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور وہ بہت سی غنیمتیں بھی حاصل کریں گے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً تَاۡخُذُوۡنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمۡ ہٰذِہٖ وَ کَفَّ اَیۡدِیَ النَّاسِ عَنۡکُمۡ ۚ وَ لِتَکُوۡنَ اٰیَۃً لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ یَہۡدِیَکُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پس یہ (فتح) تو اللہ نے تمہیں فوری عنایت کی ہے، اس نے لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے تاکہ یہ مومنین کے لیے ایک نشانی ہو اور تمہیں راہ راست کی ہدایت دے۔

20۔ جن غنیمتوں کا وعدہ ہے، وہ خیبر و دیگر جنگوں کی غنیمتیں ہیں۔ فَعَجَّلَ لَکُمۡ ہٰذِہٖ ۔ یہ کون سی غنیمت تھی جو اللہ نے انہیں فوری عنایت فرمائی؟ بعض کہتے ہیں اس غنیمت سے مراد صلح حدیبیہ ہے، جسے فتح مبین قرار دیا ہے۔ بعض کہتے ہیں فتح خیبر مراد ہے۔ حدیبیہ کے بعد فوری حاصل ہونے کی وجہ سے اسے فوری غنیمت کہا ہے۔