آیت 16
 

قُلۡ لِّلۡمُخَلَّفِیۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ سَتُدۡعَوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ تُقَاتِلُوۡنَہُمۡ اَوۡ یُسۡلِمُوۡنَ ۚ فَاِنۡ تُطِیۡعُوۡا یُؤۡتِکُمُ اللّٰہُ اَجۡرًا حَسَنًا ۚ وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا کَمَا تَوَلَّیۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ آپ پیچھے رہ جانے والے صحرا نشینوں سے کہدیجئے: تم عنقریب ایک جنگجو قوم کے مقابلے کے لیے بلائے جاؤ گے، تم یا تو ان سے لڑو گے یا وہ اسلام قبول کریں گے پس اگر تم نے اطاعت کی تو اللہ تمہیں بہتر اجر دے گا اور اگر تم نے منہ پھیر لیا جیسا کہ تم نے پہلے منہ پھیرا تھا تو وہ تمہیں شدید دردناک عذاب دے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ لِّلۡمُخَلَّفِیۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ سَتُدۡعَوۡنَ: اس جنگجو قوم سے مراد یقینا وہ لوگ ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود جنگ لڑی ہے۔ چنانچہ آپؐ نے ہوازن و ثقیف کے خلاف حنین میں جنگ لڑی ہے اور بنی مصطلق کے خلاف بھی۔

لہٰذا یہ کہنا کہ اس سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لڑی جانے والی جنگیں مراد ہیں، درست نہیں ہے۔ جیساکہ زمخشری کا دعویٰ ہے:

فانہم لم یدعوا الی الحرب فی ایام رسول اللہ۔

بعد از رسول جنگیں اس لیے مراد ہیں چونکہ رسول اللہؐ کے ایام میں انہیں جنگ میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔

ابوحیان اندلسی البحرالمحیط میں اس کا جواب دیتے ہیں:

و ھذا لیس بصحیح فقد حضر کثیر منہم مع جعفر فی موتہ و حضروا حرب ھوازن مع رسول اللہ و حضروا معہ فی سفرۃ تبوک۔

یہ بات صحیح نہیں ہے چونکہ ان لوگوں میں سے بہت لوگوں نے جنگ موتہ میں جعفر کے ہمراہ اور جنگ ہوازن میں رسول اللہؐ کے ہمراہ اور سفر تبوک میں بھی حضورؐ کے ہمراہ جنگوں میں شرکت کی ہے۔

ثانیاً اگر اس سے بعد از رسولؐ کی جنگیں مراد لی جائیں تو اس سے جنگ میں شرکت کی دعوت دینے والوں کی امامت ثابت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کافر کے بارے میں فرمایا:

بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ۔۔۔۔

ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا۔

یہاں لفظ بَعَثۡنَا (ہم نے بھیجا) سے بخت نصر کا ایمان ثابت نہیں ہوتا تو سَتُدۡعَوۡنَ سے امامت کیسے ثابت ہو گی۔

ان باتوں کی وجہ سے بہت سے مفسرین نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ اس سے زمان رسولؐ ہی کی جنگیں مراد ہو سکتی ہیں اور طبری نے اپنی تفسیر میں کوئی موقف اختیار ہی نہیں کیا۔ اسی لیے تفہیم القرآن تو سرے سے اس بات کے متعرض نہیں ہوئے۔ چونکہ لوگوں نے بعد از رسولؐ جنگ میں شرکت کی دعوت دینے والوں کی امامت کا ثبوت اس دعوت جنگ پر استوار کیا ہے۔

اور لَّنۡ تَخۡرُجُوۡا مَعِیَ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۸۳) اور لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا مشروط ہے نفاق اور مخالفت کے ساتھ۔ جب نفاق مخالفت ختم ہو جائے تو جہاد واجب ہو جاتا ہے۔

ثانیاً یہ بات صرف جنگ خیبر کے لیے مختص تھی۔ اس پر دلیل دیگر جنگوں میں ان لوگوں کی شرکت ہے۔ اسی لیے روح المعانی کے مؤلف نے کہا ہے:

والانصاف ان الآیہ لا تکاد تصح دلیلا علی امامۃ الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ الا ان صح غیر مرفوع فی کون المراد بالقوم بنی حنیفۃ و نحوھم و دون ذلک خرط القتاۃ۔

انصاف یہ ہے کہ آیت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت کے لیے دلیل نہیں بنتی مگر یہ کہ یہ بات صحیح ثابت ہو جائے کہ قوم سے مراد بنی حنیفہ ہیں اور یہ ثابت کرنا مشکل ہے۔

۲۔ قَاتِلُوۡنَہُمۡ اَوۡ یُسۡلِمُوۡنَ: اس جملے سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ یہ جنگ مشرکین کے خلاف ہو گی جن کے لیے جنگ یا اسلام ہے۔ اہل کتاب کے لیے تو تیسری صورت جزیہ موجود ہے۔

۳۔ فَاِنۡ تُطِیۡعُوۡا: اگر تم نے اطاعت کی تو اچھا ثواب ملے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں سے آئندہ اطاعت کی توقع تھی۔

اہم نکات

۱۔ اس آیت کی پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر بڑی دلیل ہے۔


آیت 16