سَیَقُوۡلُ لَکَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَتۡنَاۤ اَمۡوَالُنَا وَ اَہۡلُوۡنَا فَاسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ۚ یَقُوۡلُوۡنَ بِاَلۡسِنَتِہِمۡ مَّا لَیۡسَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ لَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ ضَرًّا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ نَفۡعًا ؕ بَلۡ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا﴿۱۱﴾

۱۱۔ صحرا نشین جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ جلد ہی آپ سے کہیں گے: ہمیں ہمارے اموال اور اہل و عیال نے مشغول رکھا لہٰذا ہمارے لیے مغفرت طلب کیجیے، یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے، کہدیجئے: اگر اللہ تمہیں ضرر پہنچانے کا ارادہ کر لے یا فائدہ پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لیے کچھ اختیار رکھتا ہو؟ بلکہ اللہ تو تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

11۔ مدینے کے اطراف میں رہنے والے ان بدوؤں کا ذکر ہے جن کو رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کے لیے ساتھ چلنے کا حکم دیا تھا، لیکن انہوں نے ساتھ نہ چلنے کو ترجیح دی تھی۔