آیات 12 - 13
 

بَلۡ ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ لَّنۡ یَّنۡقَلِبَ الرَّسُوۡلُ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِلٰۤی اَہۡلِیۡہِمۡ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِکَ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ ظَنَنۡتُمۡ ظَنَّ السَّوۡءِ ۚۖ وَ کُنۡتُمۡ قَوۡمًۢا بُوۡرًا﴿۱۲﴾

۱۲۔ بلکہ تم یہ گمان کرتے تھے کہ پیغمبر اور مومنین اپنے اہل و عیال میں کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا اور تم ہلاک ہونے والی قوم ہو۔

وَ مَنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ فَاِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَعِیۡرًا﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے ہم نے (ایسے) کفار کے لیے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔

تشریح کلمات

بُوۡرًا :(ب و ر) البوار کے معنی کسی چیز کے زیادہ مندا پڑنے کے ہیں۔ اسی سے ہلاکت کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ بَلۡ ظَنَنۡتُمۡ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہ جانے کی وجہ وہ نہ تھی جو تم کہہ رہے ہو بلکہ تمہارا یہ خیال تھا کہ رسول اور ان کے ساتھی جس موت کے منہ میں جا رہے ہیں اس سے سلامتی کے ساتھ ہرگز واپس نہیں آ سکیں گے۔ اَبَدًا کا لفظ بتاتا ہے کہ اس جگہ ظن، یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی انہیں یقین تھا کہ یہ ہرگز واپس نہیں آ سکیں گے۔

۲۔ وَّ زُیِّنَ ذٰلِکَ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ: یہ خیال انہیں بہت بھلا لگ رہا تھا۔ یعنی لشکر اسلام کی تباہی کا تصور انہیں بھلا لگ رہا تھا کہ کتنا اچھا فیصلہ تھا ہمارا کہ اس تباہی سے ہم نے اپنے آپ کو بچا لیا۔

جن کے دلوں میں لشکر اسلام کی تباہی کا تصور شیریں ہو وہ مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں؟

۳۔ وَ ظَنَنۡتُمۡ ظَنَّ السَّوۡءِ: بدترین خیال کیا جو تمہارے عدم ایمان بلکہ عداوت کا مظہر ہے۔

۴۔ وَ کُنۡتُمۡ قَوۡمًۢا بُوۡرًا: اور تم خود ہلاکت پذیر قوم ہو۔ اس سوچ نے خود تمہیں ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔

۵۔ وَ مَنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ: اس آیت میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدم اطاعت کفر ہے اور ان لوگوں کو بھی کافر قرار دیا ہے جو آزمائش کے وقت اپنے دین پر جان و مال کو ترجیح دیں۔ یہ لوگ کافر کے حکم میں ہیں۔ دنیا میں اگرچہ انہیں مسلمانوں کی صفوں سے نہیں نکالا جاتا البتہ آخرت میں یہ کافروں کے ساتھ محشور ہوں گے، اگر توبہ نہ کریں۔


آیات 12 - 13