بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝

مقدمہ

اللّٰہ اللّٰہ فی القرآن لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکم۔

قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔ (حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغۃ وصیت ۴۷ ص ۷۳۸

آغاز سخن

الٰہیاتی تصور کائنات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبث خلق نہیں فرمایا بلکہ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے پیدا کیا اور اس مقصد تک پہنچانے کے لیے انسان کو ارتقا و تکامل کے طویل مراحل سے گزارنا بھی سنت الٰہیہ رہی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کوچھ یوم میں خلق فرمایا اور چار یوم میں اس نے زمین کو انسان کے لیے قابل سکونت بنایا اور وسائل حیات پیدا کیے۔

وَقَدَّرَ فِيْہَآ اَقْوَاتَہَا فِيْٓ اَرْبَعَۃِ اَيَّامٍ۝۰ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ۝ (۴۱ فصلت ۱۰)

اور اسی نے چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے مطابق زمین میں سامان خوراک مقرر کیا۔

یہ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے یوم ہمارے دنوں سے مختلف ہیں:

وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۝ (۲۲ حج: ۴۷)

اور آپ کے پروردگار کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے مطابق یقینا ہزار برس کی طرح ہے۔

ہر چند اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کو دفعتاً درجہ کمال تک پہنچا سکتا ہے لیکن حکمت الٰہیہ کا تقاضا یہ ہے کہ ارتقا و تکامل کا یہ عمل تدریجاً ہو۔ چنانچہ زمین کو چار مرحلوں میں قابل سکونت بنایا گیا۔

جب تکامل و ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر کر انسان کی مادی ترقی احسن تقویم کی منزل تک پہنچ گئی تو اگلے مرحلے میں وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّہَا (۲ بقرہ: ۳۱) سے انسان کا فکری ارتقا شروع ہوا۔ چنانچہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کے ساتھ ہی اولاد آدم (ع) کی تعلیم و تربیت کے لیے ابتدائی درسگاہ کھول دی گئی اور نظام حیات کی ابجد سے درس شروع ہو گیا۔

حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں پہلی بار شریعت کی تدوین ہوئی۔

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا (۴۲ شوریٰ ۱۳)

اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا۔

پھر عصر خلیل علیہ السلام میں ملت اسلامیہ کی داغ بیل ڈالی گئی:

مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ (۲۲ حج: ۷۸)

یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے، اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا۔

عصر کلیم علیہ السلام میں انسانیت نے ایک اور اہم ارتقائی مرحلہ طے کیا اور امت کلیمی پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پوری ہو گئیں۔

ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّہِمْ يُؤْمِنُوْنَ۝ (۶ انعام: ۱۵۴)

پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی تاکہ نیکی کرنے والے پر اپنی نعمت پوری کر دیں اور اس میں ہر چیز کی تفصیل بیان ہو اور ہدایت اور رحمت (کا باعث) ہو۔

لیکن عصر کلیم (ع) کے انسان میں شعور و ادراک کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک بچھڑے کو خدا ماننے پر آمادہ تھا۔

عصر مسیح علیہ السلام میں انسانیت کی اس تربیت گاہ کو خداوند عالم نے شریعت عیسوی کے ذریعے مزید وسعت دی اور انسانی ترقی کے نصاب میں انجیل کا اضافہ کر کے رحمت و شفقت اور انسان دوستی کی تربیت دی گئی۔

وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاٰتَيْنٰہُ الْاِنْجِيْلَ۝۰ۥۙ وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً (۵۷ حدید: ۲۷)

اور ان سب کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور انہیں ہم نے انجیل دی اور جنہوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحم ڈال دی۔

ان ادوار میں انسان ابھی عہد طفولیت میں تھا، لہٰذا اس کی تربیت و تعلیم کے لیے سمعی و بصری ذرائع سے کام لیا گیا اور انہیں ایسے معجزات دکھائے گئے جو محسوسات و مشاہدات سے متعلق تھے۔

جب انسان عقل و شعور کے لحاظ سے بلوغت کی منزل کو پہنچ گیا تو اسے محسوس معجزات کی جگہ معقول معجزہ (قرآن) دیا گیا کیونکہ انسان اس قابل ہو گیا تھا کہ اسے ایک جامع ”ضابطۂ حیات“ اور ایک ابدی ”دستور زندگی“ کا امین بنایا جائے۔ چنانچہ قرآن جیسا معجزہ عنایت فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس امّت مرحومہ کو اس قابل بنایا کہ وہ اس سرمدی امانت کی حامل بن جائے۔ اس نعمت الٰہی کی معرفت اور اس کی قدر دانی کی واحد صورت یہ ہے کہ کلام اللہ کو حتی الامکان سمجھا اور سمجھایا جائے۔

حقیر نے اپنی علمی بے مائیگی اور فکری افلاس کے باوجود اس میدان میں قدم رکھنے کی جرأت اس لیے کی کہ اگرچہ کلام رب الارباب کو اس تراب کے ساتھ کوئی نسبت نہیں، تاہم اس کلام کے مخاطب اور اس پر عمل کرنے کے مکلف ہم ہی ہیں۔ ثانیاً ہمارے علمائے اعلام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے شاگردوں نے صدر اول سے لے کر آج تک اس عظیم امانت کو ہم تک پہنچانے اور اس کی صحیح تفسیر و مفاہیم سے ہمیں آگاہ کرنے میں ہمیشہ دوسروں پر سبقت حاصل کی ہے۔ ان کے علمی سر چشموں سے چند جرعے حاصل کرنے کی جسارت مجھ جیسا بے علم بھی کر سکتا ہے۔ پھر اس چیونٹی نے مقام سلیمانی کے مطابق نہیں بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق نذرانہ پیش کرنا ہے۔

چون عود نبود چوب بید آور دم
روئے سیہ و موئے سفید آوردم
گفتی توبہ کن کہ نا امیدی کفر است
بر قول تو رفتم و امید آوردم

نیز یہ قدم اس لیے بھی اٹھایا گیا ہے:

۱۔ قرآن حقائق کا ایک بحر بیکراں ہے۔ ہر طبقہ اور ہر نسل کو اپنی استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا: کیا وجہ ہے کہ قرآن کو جس قدر بیان اور نشر کیا جاتا ہے نیز اس میں جس قدر غور و فکر کیا جاتا ہے، اسی قدر اس میں مزید تازگی آ جاتی ہے؟ آپ (ع) نے فرمایا:

ان اللہ لم یجعلہ لزمان سدون زمان و لناس دون ناس۔ فھو فی کل زمان جدید وعند کل قوم غض الی یوم القیامۃ۔ (بحار الانوار ۲: ۲۸۰)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نہ ایک زمانے کے ساتھ مخصوص فرمایا، نہ کچھ لوگوں کے ساتھ، بلکہ یہ ہر دور میں جدت اور ہر قوم کے لیے قیامت تک تازگی رکھتا ہے۔

۲۔ قرآنی تصریحات کے بارے میں نئی نسل کی طرف سے اٹھنے والے سوالات کے جوابات فراہم کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

۳۔ جدید معاندانہ تحریروں اور الزام تراشیوں کے مقابلے میں مکتب اہل بیت علیہم السلام کا موقف بیان کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

مجھے اپنی کو تاہیوں کا اعتراف ہے۔ غیر ارادی غلطیوں کا امکان بھی موجود ہے۔ لہٰذا احباب سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں مجھے میری خامیوں سے آگاہ فرمائیں۔

اس ترجمے کی طرف مؤمنین کی اطمینان بخش توجہ کی وجہ سے اس کی جو افادیت سامنے آئی ہے، اس کے پیش نظر ہم نے مقدمہ اور حواشی میں قابل توجہ اضافہ کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ مؤمنین کو قرآنی علوم اور تفسیر سے متعلق ضروری معلومات ایک جلد میں میسر آئیں۔

اس سلسلے میں جن احباب نے میرے ساتھ تعاون فرمایا ہے ان کا شکرگزار ہوں۔ خصوصاً جناب محترم سید اظہر علی رضوی مرحوم و مغفور کی مخلصانہ کاوشیں نہ ہوتیں تو کتاب کی فارمیٹنگ اور طباعت میں یہ خوبصورتی ہرگز نہ آتی۔ خداوند عالم ان کی شب و روز کی زحمتیں قبول فرمائے۔ آمین

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محسن علی بن مولانا اخوند حسین جان رحمۃ اللہ علیہ
اسلام آباد۔ پاکستان