سَیَقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ اِذَا انۡطَلَقۡتُمۡ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاۡخُذُوۡہَا ذَرُوۡنَا نَتَّبِعۡکُمۡ ۚ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّبَدِّلُوۡا کَلٰمَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا کَذٰلِکُمۡ قَالَ اللّٰہُ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَنَا ؕ بَلۡ کَانُوۡا لَا یَفۡقَہُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۵﴾

۱۵۔ جب تم غنیمتیں لینے چلو گے تو پیچھے رہ جانے والے جلد ہی کہنے لگیں گے: ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ چلیں، وہ اللہ کے کلام کو بدلنا چاہتے ہیں، کہدیجئے: اللہ نے پہلے ہی فرمایا تھا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں جاؤ گے، پھر وہ کہیں گے: نہیں بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، (دراصل) یہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔

15۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ لوگ مسلمانوں کو آسان فتوحات کی طرف جاتے دیکھ کر ساتھ چلنے کی خواہش کریں گے۔ چنانچہ چند ماہ بعد جنگ خیبر کے موقع پر ان لوگوں نے دیکھا کہ اب تو خطرے کے بغیر آسانی سے فتوحات شروع ہو گئی ہیں اور اموال غنیمت وافر مقدار میں حاصل ہونے کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں، لہٰذا ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کو پہلے ہی حکم دیا گیا تھا کہ ان کو ساتھ نہیں لے جانا، بلکہ وہ لوگ اس کے زیادہ حقدار ہیں جنہوں نے خطرات کے دنوں میں جہاد میں حصہ لیا ہے۔ یعنی حدیبیہ میں شریک رہے۔

یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّبَدِّلُوۡا کَلٰمَ اللّٰہِ : وہ اللہ کے اس کلام کو بدلنا چاہتے ہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ خیبر کی جنگ میں صرف حدیبیہ والے شرکت کریں گے یا اس وعدے کو جھٹلانا چاہتے ہیں کہ خیبر کے غنائم صرف حدیبیہ والوں کو ملیں گے۔ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَنَا وہ رسول اللہ ﷺ پر یہ الزام بھی عائد کریں گے کہ ہماری شرکت کی ممانعت اللہ کی طرف سے نہیں ہے، بلکہ صرف حسد کی بنیاد پر ہمیں شریک ہونے نہیں دیا جا رہا ہے۔