آیت 15
 

سَیَقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ اِذَا انۡطَلَقۡتُمۡ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاۡخُذُوۡہَا ذَرُوۡنَا نَتَّبِعۡکُمۡ ۚ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّبَدِّلُوۡا کَلٰمَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا کَذٰلِکُمۡ قَالَ اللّٰہُ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَنَا ؕ بَلۡ کَانُوۡا لَا یَفۡقَہُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۵﴾

۱۵۔ جب تم غنیمتیں لینے چلو گے تو پیچھے رہ جانے والے جلد ہی کہنے لگیں گے: ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ چلیں، وہ اللہ کے کلام کو بدلنا چاہتے ہیں، کہدیجئے: اللہ نے پہلے ہی فرمایا تھا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں جاؤ گے، پھر وہ کہیں گے: نہیں بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، (دراصل) یہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ سَیَقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ: ایک ایسا واقعہ آنے والا ہے کہ حدیبیہ کے سفر میں آپ کے ساتھ نہ جانے والے، مسلمانوں کو آسان فتوحات کی طرف جاتے دیکھ کر ساتھ چلنے کی خواہش کریں گے تاکہ ان جنگوں میں ہاتھ لگنے والی غنیمتوں میں شریک ہو سکیں۔

چنانچہ چند ماہ بعد جنگ خیبر کے موقع پر ان لوگوں نے دیکھا اب تو خطرے کے بغیر آسانی سے فتوحات شروع ہو گئی ہیں اور اموال غنیمت وافر مقدار میں حاصل ہونے کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں لہٰذا ہم بھی ساتھ چلتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے ہی حکم دیا گیا تھا کہ انہیں ساتھ نہیں لے جانا۔ صرف ان لوگوں کو ساتھ لے جانا ہے جنہوں نے خطرات کے دنوں میں جہاد میں حصہ لیا یعنی حدیبیہ میں شریک رہے ہیں۔

۲۔ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّبَدِّلُوۡا کَلٰمَ اللّٰہِ: وہ اللہ کے اس کلام کو بدلنا چاہتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آیندہ جنگ میں صرف حدیبیہ والے شرکت کریں گے یا اس وعدے کو جھٹلانا چاہتے ہیں کہ خیبر کے غنائم حدیبیہ والوں کو ملیں گے:

وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً تَاۡخُذُوۡنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمۡ ہٰذِہٖ۔۔۔۔ (۴۸ فتح: ۲۰)

اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے۔

۳۔ قُلۡ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا: تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے۔ ساتھ چلنے سے منع فرمایا۔

۴۔ کَذٰلِکُمۡ قَالَ اللّٰہُ مِنۡ قَبۡلُ: ان صحرا نشینوں کی خیبر کی جنگ میں شرکت پر آمادگی سے پہلے اللہ نے بتا دیا کہ یہ شرکت نہیں کریں گے۔ یعنی حدیبیہ سے واپسی کے وقت بتا دیا تھا۔

۵۔ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَنَا: وہ یہ موقف اختیار کریں گے کہ شرکت سے جو منع کیا جا رہا ہے یہ حکم خدا نہیں ہے بلکہ از روئے حسد خود اپنی طرف سے منع کر رہے ہیں۔

۶۔ بَلۡ کَانُوۡا لَا یَفۡقَہُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا: وہ اپنی نافہمی اور کم عقلی کی بنیاد پر یہ بات کر رہے ہیں کہ اللہ کا رسول اپنی طرف سے منع کر رہے ہیں۔ وہ اس بات کے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے۔

اہم نکات

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موقع پرستوں نے تکلیف پہنچائی ہے۔


آیت 15