حق کی استواری اور باطل کی بے ثباتی


اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں؟

24۔ 25 کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کا لفظی ترجمہ ”پاکیزہ بات“ ہے۔ اس سے مراد وہ پاکیزہ مؤقف و اعتقاد ہے جس کا اظہار قول و عمل سے ہوتا ہے۔ وہ مؤقف جو انبیاء و رسل نے اللہ کی طرف سے پیش کیا ہے، وہ پاکیزہ نظام زندگی و دستور حیات ہے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے انسانیت کے لیے عنایت فرمایا ہے، جس کا نقطہ آغاز و محکم اساس کلمہ توحید ہے۔ اس آیت میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں: ٭حق کی جڑیں مضبوط اور شاخیں بارآور ہوتی ہیں: اَصۡلُہَا ثَابِتٌ ۔ ٭حق کی افادیت زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے: تُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْن ۔٭ ایمان و عقیدہ جڑ اور اعمال صالحہ شاخیں ہیں۔

وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیۡثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیۡثَۃِۣ اجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَہَا مِنۡ قَرَارٍ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال اس شجرہ خبیثہ کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو اور اس کے لیے کوئی ثبات نہ ہو ۔

26۔ کَلِمَۃٍ خَبِیۡثَۃٍ،کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کے مقابلے میں ہے۔ یعنی کلمہ حق کے مقابلے میں آنے والا کلمہ باطل، صحیح عقائد کے مقابلے میں آنے والے فاسد عقائد، مبنی بر حقیقت نظام حیات کے مقابلے میں آنے والا فاسد نظام، کلمہ حق کی استواری اور دوام اور کلمہ باطل کی بے ثباتی سب پر واضح ہے۔ چنانچہ وہ کلمہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلند کیا، اس کی گونج آج تک پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے مقابلے میں آنے والے ہزاروں نمرود و نمرودیوں کے نام صرف صفحہ تاریخ میں چند سیاہ حرفوں میں باقی ہیں۔