آیات 24 - 25
 

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں؟

تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں اس لیے دیتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ: کلمہ طیبہ کا لفظی ترجمہ ’’پاکیزہ بات ‘‘ ہے۔ اس سے مراد وہ پاکیزہ موقف و اعتقاد ہے جس کا اظہار، قول و عمل سے ہوتا ہے۔ وہ موقف جو انبیاء و رسل علیہم السلام نے اللہ کی طرف سے پیش کیا ہے وہ پاکیزہ نظام زندگی و دستور حیات ہے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے انسانیت کے لیے عنایت فرمایا ہے جس کا نقطہ آغاز و محکم اساس، کلمہ توحید ہے۔

۲۔ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ: یہ کلمہ حق، دلیل و برہان اور منطق کے اعتبار سے فطرت کائنات سے ہم آہنگ اور اس کے تقاضوں کے عین مطابق ہونے کے اعتبار سے مضبوط اور محکم بنیادوں پر استوار ہے۔ بالکل اس درخت کی طرح جس کی جڑیں زمین میں ایسی گڑی ہوئی ہیں کہ زمانے کی تند و تیز ہوائیں اور طوفان اس کو ہلا نہیں سکتے۔

۳۔ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ: یہ کلمہ حق ایسا پھیلے گا کہ دنیا کے جس کونے تک جانے کی گنجائش ہو گی یہ کلمہ حق وہاں پہنچ جائے گا۔ بالکل اس درخت کی شاخوں کی طرح جو آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔ درخت میں پھلنے پھولنے کا بہترین موقع اس وقت آتا ہے جب اس کے لیے سازگار ماحول میسر آئے۔ طبیعت زمین ہوا، پانی کے ساتھ سازگار ہو۔ کلمہ حق چونکہ نظام فطرت کے ساتھ نہایت سازگار ہو گا لہٰذا یہ مشکلات اور مخالفتوں کے باوجود پھیلے گا۔

۴۔ تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ: کلمہ حق ایک ایسا نتیجہ خیز اور پرفیض نظام حیات ہے جس کا پھل انسان ہر قدم پر اٹھا سکتا ہے اور زندگی کا ہر گوشہ اس پھل سے مالا مال ہو سکتا ہے:

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔ (۷ اعراف: ۹۶)

اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔۔۔۔

۵۔ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ: کلمہ طیبۃ جو ایک غیر حسی بات ہے، کی تشبیہ اللہ تعالیٰ نے شجرہ کے ساتھ دی ہے جو محسوس چیز ہے چونکہ انسان کے لیے معقول باتوں سے زیادہ قابل فہم، محسوس باتیں ہوتی ہیں۔

اہم نکات

۱۔ حق کی جڑیں مضبوط اور شاخیں بار آور ہوتی ہیں : اَصۡلُہَا ثَابِتٌ۔۔۔۔ تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا ۔۔۔۔

۲۔ حق کی افادیت زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے: تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ ۔۔۔۔

۳۔ ایمان و عقیدہ جڑ اور اعمال صالحہ شاخیں ہیں۔


آیات 24 - 25