آیت 26
 

وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیۡثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیۡثَۃِۣ اجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَہَا مِنۡ قَرَارٍ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال اس شجرہ خبیثہ کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو اور اس کے لیے کوئی ثبات نہ ہو ۔

تشریح کلمات

اجۡتُثَّتۡ:

( ج ث ث ) جثۃ کے معنی کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے ہیں۔

تفسیر آیات

کلمہ خبیثہ، کلمہ طیبہ کے مقابلے میں ہے۔ کلمہ حق کے مقابلے میں آنے والا کلمہ، باطل، صحیح عقائد کے مقابلے میں آنے والے عقائد، فاسد ہیں اور ہر مبنی برحقیقت نظام حیات کے مقابلے میں آنے والا نظام، فاسد ہے۔

کلمہ حق کی استواری اور کلمہ باطل کی بے ثباتی سب پر واضح ہے۔ چنانچہ وہ کلمہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلند کیا اس کی گونج آج تک پوری طاقت کے ساتھ اطراف کائنات میں موجود ہے۔ اس کے مقابلے میں آنے والے ہزاروں نمرودوں کے نام صرف صفحہ تاریخ پر چند سیاہ حردف میں باقی ہیں۔

حضرت ابن عباس راوی ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا:

انت الشجرۃ و علی غصنھا و فاطمۃ ورقھا الحسن والحسین ثمارھا ۔ (بحار ۲۴: ۱۳۷۔ مجمع البیان)

آپ شجرہ طیبہ ہیں۔ علی اس کی شاخ، فاطمہ پتے اور حسن و حسین اس کے پھل ہیں۔

اہم نکات

۱۔ حق پائیدار اور باطل ناپائیدار ہے۔


آیت 26