وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیۡثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیۡثَۃِۣ اجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَہَا مِنۡ قَرَارٍ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال اس شجرہ خبیثہ کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو اور اس کے لیے کوئی ثبات نہ ہو ۔

26۔ کَلِمَۃٍ خَبِیۡثَۃٍ،کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کے مقابلے میں ہے۔ یعنی کلمہ حق کے مقابلے میں آنے والا کلمہ باطل، صحیح عقائد کے مقابلے میں آنے والے فاسد عقائد، مبنی بر حقیقت نظام حیات کے مقابلے میں آنے والا فاسد نظام، کلمہ حق کی استواری اور دوام اور کلمہ باطل کی بے ثباتی سب پر واضح ہے۔ چنانچہ وہ کلمہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلند کیا، اس کی گونج آج تک پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے مقابلے میں آنے والے ہزاروں نمرود و نمرودیوں کے نام صرف صفحہ تاریخ میں چند سیاہ حرفوں میں باقی ہیں۔