اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں؟

24۔ 25 کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کا لفظی ترجمہ ”پاکیزہ بات“ ہے۔ اس سے مراد وہ پاکیزہ مؤقف و اعتقاد ہے جس کا اظہار قول و عمل سے ہوتا ہے۔ وہ مؤقف جو انبیاء و رسل نے اللہ کی طرف سے پیش کیا ہے، وہ پاکیزہ نظام زندگی و دستور حیات ہے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے انسانیت کے لیے عنایت فرمایا ہے، جس کا نقطہ آغاز و محکم اساس کلمہ توحید ہے۔ اس آیت میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں: ٭حق کی جڑیں مضبوط اور شاخیں بارآور ہوتی ہیں: اَصۡلُہَا ثَابِتٌ ۔ ٭حق کی افادیت زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے: تُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْن ۔٭ ایمان و عقیدہ جڑ اور اعمال صالحہ شاخیں ہیں۔