ولیدبن مغیرہ کی رسولؐ پر تہمت


ذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ خَلَقۡتُ وَحِیۡدًا ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ مجھے اور اس شخص کو (نبٹنے کے لیے) چھوڑ دو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا،

11 تا 30۔ یہ تعبیر عام ہے ہر کافر کے لیے۔ ساتھ اشارہ ہے مکہ کے ایک شخص ولید بن مغیرہ کی طرف جو دولت مند اور کثیر الاولاد تھا۔ ان میں خالد بن ولید زیادہ مشہور ہے۔ اسی نے مشورہ دیا تھا کہ حج کے لیے آنے والوں میں مشہور کرو کہ محمد ﷺ جادوگر ہیں (نعوذ باللّٰہ)۔ اس سلسلے میں ولید کو حضور ﷺ کے خلاف مؤقف تراشنے میں جس کشمکش کا سامنا کرنا پڑا، قرآن نے نہایت وضاحت کے ساتھ اس کی تصویر کشی کی ہے کہ ولید نے کہا تھا: ہم اس شخص کو کاہن، شاعر اور ساحر نہیں کہ سکتے۔ ابوجہل کے کہنے پر اس نے سوچ کر کہا: اس کو جادوگر کہنا ہی سب سے زیادہ مناسب ہے۔ (نعوذ باللّٰہ)

وَّ جَعَلۡتُ لَہٗ مَالًا مَّمۡدُوۡدًا ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور میں نے اس کے لیے بہت سا مال دیا،

وَّ بَنِیۡنَ شُہُوۡدًا ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور حاضر رہنے والے بیٹے بھی،

وَّ مَہَّدۡتُّ لَہٗ تَمۡہِیۡدًا ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ اور میں نے اس کے لیے (آسائش کی) راہ ہموار کر دی،

14۔ یعنی اسے مال و اولاد دونوں سے نوازا۔ لیکن وہ اس پر بھی راضی نہیں ہے۔ زیادہ لالچ کے مرض میں مبتلا ہے۔

ثُمَّ یَطۡمَعُ اَنۡ اَزِیۡدَ﴿٭ۙ۱۵﴾

۱۵۔ پھر وہ طمع کرنے لگتا ہے کہ میں اور زیادہ دوں۔

کَلَّا ؕ اِنَّہٗ کَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیۡدًا ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ ہرگز نہیں! وہ یقینا ہماری آیات سے عناد رکھنے والا ہے۔

سَاُرۡہِقُہٗ صَعُوۡدًا ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ میں اسے کٹھن چڑھائی چڑھنے پر مجبور کروں گا۔

17۔ روایت میں آیا ہے کہ جہنم میں ایک پہاڑ ہے جس پر کافروں کو چڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔ وہ چڑھے گا، پھر گر جائے گا، پھر چڑھے گا، پھر گر جائے گا۔

اِنَّہٗ فَکَّرَ وَ قَدَّرَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔اس نے یقینا کچھ سوچا اسے(کچھ) سوجھا۔

18۔ اس نے سوچا کہ قرآن کو کس نام سے رد کیا جائے۔ آخر کار اسے جادو کا نام دینے کا سوجھا۔

فَقُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ پس اس پر اللہ کی مار، اسے کیا سوجھی؟

ثُمَّ قُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ پھر اس پر اللہ کی مار ہو، اسے کیا سوجھی؟

ثُمَّ نَظَرَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ پھر اس نے نظر دوڑائی،

ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا،

ثُمَّ اَدۡبَرَ وَ اسۡتَکۡبَرَ ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔پھر پلٹا اور تکبر کیا،

فَقَالَ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ یُّؤۡثَرُ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ پھر کہنے لگا: یہ جادو کے سوا کچھ نہیں ہے جو منقول ہو کر آیا۔

24۔ جادو کا نام دینے میں اسے تامل تھا کہ محمد ﷺ کو کبھی جادو سے سروکار نہیں رہا تو یہ توجیہ گھڑ دی کہ کسی سے سیکھا ہے، یعنی درآمد شدہ جادو ہے۔

سِحۡرٌ یُّؤۡثَرُ ممکن ہے اشارہ بابل کی طرف ہو کہ یہ جادو بابل سے درآمد کیا گیا ہے۔

اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوۡلُ الۡبَشَرِ ﴿ؕ۲۵﴾

۲۵۔ یہ تو صرف بشر کا کلام ہے۔

سَاُصۡلِیۡہِ سَقَرَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ عنقریب میں اسے آگ (سقر) میں جھلسا دوں گا۔

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا سَقَرُ ﴿ؕ۲۷﴾

۲۷۔ اور آپ کو کس چیز نے بتایا سقر کیا ہے ؟

27۔ آپ کیا سمجھیں سَقَر کیا ہے۔ یہ کسی امر کی شدت و اہمیت بتانے کے لیے ایک محاورہ ہے۔

لَا تُبۡقِیۡ وَ لَا تَذَرُ ﴿ۚ۲۸﴾

۲۸۔ وہ نہ باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے۔

لَوَّاحَۃٌ لِّلۡبَشَرِ ﴿ۚۖ۲۹﴾

۲۹۔آدمی کی کھال جھلسا دینے والی ہے ۔

عَلَیۡہَا تِسۡعَۃَ عَشَرَ ﴿ؕ۳۰﴾

۳۰۔ اس پر انیس (فرشتے) موکل ہیں۔