آیات 18 - 25
 

اِنَّہٗ فَکَّرَ وَ قَدَّرَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔اس نے یقینا کچھ سوچا اسے(کچھ) سوجھا۔

فَقُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ پس اس پر اللہ کی مار، اسے کیا سوجھی؟

ثُمَّ قُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ پھر اس پر اللہ کی مار ہو، اسے کیا سوجھی؟

ثُمَّ نَظَرَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ پھر اس نے نظر دوڑائی،

ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا،

ثُمَّ اَدۡبَرَ وَ اسۡتَکۡبَرَ ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔پھر پلٹا اور تکبر کیا،

فَقَالَ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ یُّؤۡثَرُ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ پھر کہنے لگا: یہ جادو کے سوا کچھ نہیں ہے جو منقول ہو کر آیا۔

اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوۡلُ الۡبَشَرِ ﴿ؕ۲۵﴾

۲۵۔ یہ تو صرف بشر کا کلام ہے۔

تشریح کلمات

بَسَرَ:

( ب س د ) البسر کے معنی منہ بگاڑنے کے ہیں۔

عَبَسَ:

( ع ب س ) العبوس کے معنی سینہ کی تنگی سے چہرے پر شکن پڑنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّہٗ فَکَّرَ: اس نے یعنی ولید بن مغیرہ نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف مہم میں کیا نعرہ استعمال کیا جائے۔ کاہن کہا جائے یا مجنون، شاعر کہا جائے یا ساحر؟

۲۔ وَ قَدَّرَ: اسے کچھ سوجھا، کچھ اندازہ کیا کہ ساحر کہا جائے تو چسپاں ہونے کا امکان ہے۔ اس طرح اس نے کوئی بات بنانے کی کوشش کی۔ قَدَّرَ بات کو ناپ تول کر کے دیکھ لینا کہ موثر ثابت ہو گی یا نہیں؟

۳۔ فَقُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ: پھر اس پر اللہ کی مار، اس نے کس طرح بات بنانے کی کوشش کی۔ فَقُتِلَ بددعا ہے کہ یہ شخص حیات کے اہل نہیں ہے۔ پھر تعجب کا اظہار ہے کَیۡفَ قَدَّرَ۔ اس نے کس طرح بات کو ناپ تول کر دیکھا اور کوئی صورت نکالنے کی کوشش کی جو واقع سے کوسوں دور ہے۔ اگرچہ اس کی یہ کوشش ناکام رہے گی تاہم اس نے جو بات بنائی ہے اس کا کلام الٰہی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔

۴۔ ثُمَّ قُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ: اس میں اس بددعا کی تاکید ہے اور جو بات اسے سوجھی ہے اس پر تعجب ہے کہ کلام الٰہی کا جادو سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔

۵۔ ثُمَّ نَظَرَ: پھر اس نے لوگوں کے چہروں کی طرف نگاہ کی کہ جو بات اس نے بنائی ہے اس کے بارے میں اس کی قوم راضی ہے؟ چونکہ جو بات اس نے بنائی ہے وہ اس کے اپنے عقیدے کے مطابق نہ تھی۔ اسے یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ساحر نہیں ہیں بلکہ اس نے اپنی قوم کو مطمئن کرنے لیے یہ بات بنائی تھی۔ چنانچہ اس نے کہا:

لقد سمعت من محمد آنفا کلاماً ما ھو من کلام الانس ولا من کلام الجن ان لہ لحلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ وان اعلاہ لمثمر وان اسفلہ لمغدق۔ (الکشاف)

میں نے ابھی محمد سے ایک کلام سنا ہے جو نہ انسان کا کلام ہے، نہ جن کا۔ اس کلام میں بڑی حلاوت ہے اور اس پر ایک زیبائی چھائی ہوئی ہے اس کی ڈالیاں پھلدار اور اس کی جڑیں بڑی مضبوط ہیں۔

۶۔ ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ: پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا چونکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ناشائستہ کلمات کہنے کا ارادہ کر لیا تھا اور اپنا عناد اور دشمنی جو دل میں موجزن تھی، نکالنا چاہ رہا تھا۔

۷۔ ثُمَّ اَدۡبَرَ وَ اسۡتَکۡبَرَ: پھر پلٹا اور حق کو پس پشت کیا، تکبر کا انداز اختیار کیا اور ان ناحق اور باطل کلمات کو اپنے ناپاک دہن سے نکالنے کے لیے یہ ساری تمہیدیں باندھیں۔ بالآخر اس نے کہدیا:

۸۔ فَقَالَ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ یُّؤۡثَرُ: یہ درآمد شدہ جادو کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ اشارہ بابل کی طرف ہو کہ یہ جادو بابل سے درآمد کیا گیا ہے جو اس نے کسی سے سیکھ لیا ہے۔ بعض نے یُّؤۡثَرُ سے مراد ایثار لیا ہے کہ یہ ایک ایسا جادو ہے جسے دوسرے جادوؤں پر ترجیح اور فوقیت حاصل ہے۔

۹۔ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوۡلُ الۡبَشَرِ: یہ صرف بشر کا کلام ہے۔ یہ فقرہ بھی پہلے فقرے کی تاکید ہے اور مطلب دونوں جملوں کا ایک ہے۔ صرف تعبیر میں فرق ہے۔


آیات 18 - 25