منکرین کے اعتراض اور جواب


قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ اٰتٰىنِیۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِہٖ فَعُمِّیَتۡ عَلَیۡکُمۡ ؕ اَنُلۡزِمُکُمُوۡہَا وَ اَنۡتُمۡ لَہَا کٰرِہُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔(نوح نے) کہا: اے میری قوم! مجھے بتاؤ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے مگر وہ تمہیں نہ سوجھتی ہو تو کیا ہم تمہیں اس پر مجبور کر سکتے ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟

28۔ سابقہ آیات میں منکرین کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات میں سے ایک ایک کا جواب ہے۔ پہلا شبہ یہ تھا کہ تم ہم جیسے بشر ہو۔ اس کے جواب میں فرمایا: میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں کہ میں اس کا نمائندہ ہوں۔ اس نے مجھے اپنی رحمت یعنی نبوت سے نوازا ہے۔ پھر بھی میں تم جیسا ہوں۔

وَ یٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡہِ مَالًا ؕ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ اِنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ لٰکِنِّیۡۤ اَرٰىکُمۡ قَوۡمًا تَجۡہَلُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور میں ان لوگوں کو اپنے سے دور بھی نہیں کر سکتا جو ایمان لا چکے ہیں، یقینا یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جاہل قوم ہو۔

29۔ دوسرا شبہ یہ تھا کہ تمہاری پیروی ادنیٰ درجے کے لوگ کر رہے ہیں۔ اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے: انبیاء علیہ السلام لوگوں کے مال و دولت سے بے نیاز ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے سامنے امیر و فقیر یکساں ہوتے ہیں۔ ہدایت و رہنمائی کا بھی لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں مانگا جاتا۔ اس لیے دعوت انبیاء علیہ السلام کے بارے میں فقیر و امیر کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ جن لوگوں نے اس دعوت پر لبیک کہی ہے، ان کو صرف فقیر و نادار ہونے کی بنیاد پر دھتکار دیا جائے۔

وَ یٰقَوۡمِ مَنۡ یَّنۡصُرُنِیۡ مِنَ اللّٰہِ اِنۡ طَرَدۡتُّہُمۡ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور اے میری قوم! اگر میں انہیں دور کروں تو مجھے اللہ (کے قہر) سے کون بچائے گا؟ کیا تم نصیحت نہیں لیتے ؟

وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ اِنِّیۡ مَلَکٌ وَّ لَاۤ اَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ تَزۡدَرِیۡۤ اَعۡیُنُکُمۡ لَنۡ یُّؤۡتِیَہُمُ اللّٰہُ خَیۡرًا ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۚۖ اِنِّیۡۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور میں تم سے نہ تو یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ انہیں بھلائی سے نہیں نوازے گا، ان کے دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے، اگر میں ایسا کہوں تو میں ظالموں میں سے ہو جاؤں گا۔

31۔ منکرین کا تیسرا شبہ یہ تھا کہ تمہیں ہم پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت کے جاہلی معیار کی اس آیت میں نفی کی گئی ہے کہ نہ میرے پاس اللہ کے خزانوں کی کنجیاں ہیں کہ جس کو چاہوں دولت سے مالا مال کروں، نہ کاہنوں کی طرح غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں۔ میں نے کبھی فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، میں انسان ہوں، کھاتا پیتا چلتا پھرتا ہوں۔ رسول کا کام انسان کی ہدایت و رہبری اور اللہ کی طرف سے دستور حیات دینا ہے، مگر جاہلی طرز فکر کے مطابق رسول کو مافوق البشر خزانوں کا مالک اور غیب دان ہونا چاہیے۔