کائنات پر حاکم نظم و ضبط


شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿ؕ۱۸﴾

۱۸۔اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی،وہ عدل قائم کرنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

18۔ یہاں توحید و عدل پر تین شہادتوں کا ذکر ہے۔ اوّل خود اللہ شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل قائم کرنے والا ہے۔ چنانچہ اس کی کتابِ آفاق و انفس کا ہر صفحہ اور ہر سطر اس کی وحدانیت اور اس کے عدل و انصاف پر دلالت کرتی ہے اور ذرے سے لے کر کہکشاؤں تک نظام کی وحدت، خالق کی وحدت کی دلیل ہے۔ یا من دل علی ذاتہ بذاتہ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب ۔ دوم فرشتوں کی شہادت۔ چونکہ فرشتے نظام کائنات کے کارندے ہیں اس لیے اللہ کی وحدانیت اور اس کے عدل و انصاف کا علم رکھتے ہیں اور شہادت کا حق صرف انہیں حاصل ہوتا ہے جو علم رکھتے ہوں۔ سوم صاحبان علم جو صحیفۂ آفاق و انفس کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور کہ اٹھتے ہیں: رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۔(آل عمران ۱۹۱)

لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کے نظام) درہم برہم ہو جاتے، پس پاک ہے اللہ، رب عرش ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔

22۔ آیت، معبود کی وحدت پر دلیل قائم کرتی ہے۔ اگر اس کائنات میں ایک سے زیادہ معبود و مدبر ہوتے تو ذاتاً ایک دوسرے سے مختلف ہوتے۔ ذات میں مختلف ہونے سے تدبیر میں بھی اختلاف لازم آتا ہے۔ تدبیر میں اختلاف سے نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، لہٰذا نظام کی وحدت نظام دہندہ کی وحدت کی دلیل ہے۔ قانون کی وحدت قانون ساز کی وحدت کا واضح ثبوت ہے۔

واضح رہے مشرکین غیر اللہ کی عبادت اس بنیاد پر کرتے تھے کہ تدبیر کائنات میں ان کا حصہ اور دخل ہے اس طرح معبود اور مدبر ایک ہی ذات کے لیے دو تعبیریں ہیں۔