بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ اے کپڑوں میں لپٹنے والے!

1۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حالت تزمل اور رسالت کے فرائض کے درمیان کوئی ربط اور واسطہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم تزمل بار سنگین کے معنی لیں تو بظاہر ربط معلوم ہو جاتا ہے: اے بار سنگین اٹھانے والے۔ چنانچہ جوہری، ابن اثیر اور بیضاوی نے زمّل کا ایک معنی بوجھ اٹھانے سے کیا ہے۔

قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ رات کو اٹھا کیجیے مگر کم،

نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لیجیے،

اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾

۴۔ یا اس پر کچھ بڑھا دیجئے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجیے ۔

4۔ موجودہ نامساعد حالات اور آئندہ آنے والے سنگین حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے رات کو اٹھ کر عبادت اور قرآن کی تلاوت کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مادی وسائل اور اسلحوں سے نہیں، بلکہ باطنی اور روحانی قوت سے لیس کرنا چاہتا ہے۔

اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا﴿۵﴾

۵۔ عنقریب آپ پر ہم ایک بھاری حکم (کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔

5۔ رات کو اٹھ کر عبادت و تلاوت کے ذریعے عظیم ملکوتی طاقت سے گہرا ربط قائم کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آرہی ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کاندھوں پر ایک سنگین ذمہ داری ڈالی جا رہی ہے۔

اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا ؕ﴿۶﴾

۶۔ رات کا اٹھنا ثبات قدم کے اعتبار سے زیادہ محکم اور سنجیدہ کلام کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے۔

6۔ ایک عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے رات کی تاریکی اور پرسکون لمحات زیادہ مناسب ہیں جن میں دنیا والوں کے شور و غل سے فارغ یکسو سناٹا میسر آتا ہے اور اپنے خالق سے بہتر اور بیشتر طاقت حاصل کی جا سکتی ہے۔ رات کو روح میں صفائی، عقل کو فراغت، ذہن کو سکون اور ضمیر و وجدان کو مطلوبہ فضا میسر آتی ہے۔

اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا ؕ﴿۷﴾

۷۔ دن میں تو آپ کے لیے بہت سی مصروفیات ہیں۔

وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؕ﴿۸﴾

۸۔ اور اپنے رب کے نام کا ذکر کیجیے اور سب سے بے نیاز ہو کر صرف اسی کی طرف متوجہ ہو جائیے۔

رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذۡہُ وَکِیۡلًا﴿۹﴾

۹۔ وہ مشرق اور مغرب کا رب ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں لہٰذا اسی کو اپنا ضامن بنا لیجیے۔

وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور جو کچھ یہ لوگ کہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے اور شائستہ انداز میں ان سے دوری اختیار کیجیے۔

10۔ ابتدائے بعثت میں ہر طرف سے توہین آمیز جملے سننے کو ملتے تھے۔ اس پر صبر کرنے اور پر وقار انداز میں ان سے دور رہنے کاحکم ملتا ہے۔ یعنی جاہلیت سے دوری اختیار کرنے میں جمالیاتی کردار ادا ہونا چاہیے کہ جس کے ساتھ انتقام جوئی نہ ہو اور دعوت الی الحق جاری رہے۔