اَفَمَنۡ وَّعَدۡنٰہُ وَعۡدًا حَسَنًا فَہُوَ لَاقِیۡہِ کَمَنۡ مَّتَّعۡنٰہُ مَتَاعَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ثُمَّ ہُوَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ مِنَ الۡمُحۡضَرِیۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ کیا وہ شخص جسے ہم نے بہترین وعدہ دیا ہے اور وہ اس (وعدے) کو پا لینے والا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیاوی زندگی کا سامان فراہم کر دیا ہے؟ پھر وہ قیامت کے دن پیش کیے جانے والوں میں سے ہو گا

وَ یَوۡمَ یُنَادِیۡہِمۡ فَیَقُوۡلُ اَیۡنَ شُرَکَآءِیَ الَّذِیۡنَ کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔اور جس دن اللہ انہیں پکارے گا اور کہے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم میرا شریک گمان کرتے تھے ؟

62۔ لوگوں کو گمراہ وہ لوگ کرتے ہیں جو خود گمراہ ہوتے ہیں۔ انجام کار ایک دوسرے سے بیزاری ہوتی ہے: مَا کَانُوۡۤا اِیَّانَا یَعۡبُدُوۡنَ ۔ وہ خود اپنی خواہشات کی پرستش کرتے تھے۔ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے۔

قَالَ الَّذِیۡنَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ اَغۡوَیۡنَا ۚ اَغۡوَیۡنٰہُمۡ کَمَا غَوَیۡنَا ۚ تَبَرَّاۡنَاۤ اِلَیۡکَ ۫ مَا کَانُوۡۤا اِیَّانَا یَعۡبُدُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ جن پر (اللہ کا) فیصلہ حتمی ہو چکا ہو گا وہ کہیں گے: ہمارے رب! یہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا، جس طرح ہم خود گمراہ ہوئے تھے اسی طرح ہم نے انہیں گمراہ کیا تھا، (اب) ہم تیری طرف متوجہ ہو کر ان سے بیزار ہوتے ہیں کہ وہ ہماری پوجا نہیں کیا کرتے تھے۔

وَ قِیۡلَ ادۡعُوۡا شُرَکَآءَکُمۡ فَدَعَوۡہُمۡ فَلَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہُمۡ وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ ۚ لَوۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَہۡتَدُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اور (ان سے) کہا جائے گا: اپنے شریکوں کو بلاؤ تو یہ انہیں پکاریں گے لیکن وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور وہ عذاب کو بھی دیکھ رہے ہوں گے، (اس وقت تمنا کریں گے) کاش وہ ہدایت پر ہوتے۔

وَ یَوۡمَ یُنَادِیۡہِمۡ فَیَقُوۡلُ مَاذَاۤ اَجَبۡتُمُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اور اس دن اللہ انہیں ندا دے گا اور فرمائے گا: تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا؟

فَعَمِیَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَنۡۢبَآءُ یَوۡمَئِذٍ فَہُمۡ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ تو ان کو ان باتوں کا پتہ نہیں چلے گا (جن سے رسولوں کو جواب دیا ہے) اور اس دن وہ ایک دوسرے سے پوچھ بھی نہ سکیں گے۔

66۔ قیامت کے دن جب منکروں سے سوال ہو گا کہ تم نے پیغمبروں کی دعوت کا کیا جواب دیا ہے تو ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑے گا۔ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھ بھی نہیں سکیں گے۔

فَاَمَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مِنَ الۡمُفۡلِحِیۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ لیکن جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو امید ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔

وَ رَبُّکَ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخۡتَارُ ؕ مَا کَانَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور آپ کا رب جسے چاہتا ہے خلق کرتا ہے اور منتخب کرتا ہے، انہیں انتخاب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، اللہ پاک بلند و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

68۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خطاب ہے کہ یہ مشرکین آپ کے رب کے اقتدار اعلیٰ میں مداخلت کرتے ہیں جبکہ خلق و اختیار اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ جس طرح خلق میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے، اسی طرح اختیار و انتخاب میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ یہ مشرکین اپنے لیے وسیلہ (بت) کو خود اختیار کرتے ہیں۔ یہ اللہ کے اقتدار اعلیٰ میں مداخلت ہے۔ لہٰذا جس طرح تخلیق میں کوئی شریک نہیں ہے، تشریع و قانون سازی میں بھی کوئی شریک نہیں ہے۔

مولانا مودودی اس جگہ لکھتے ہیں: اپنے پیدا کیے ہوئے انسانوں، فرشتوں، جنوں اور دوسرے بندوں میں سے ہم خود جس کو چاہتے ہیں اوصاف، صلاحیتیں اور طاقتیں بخشتے ہیں اور جو کام جس سے لینا چاہتے ہیں لیتے ہیں۔ یہ اختیارات آخر ان مشرکین کو کیسے اور کہاں سے مل گئے؟

وَ رَبُّکَ یَعۡلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوۡرُہُمۡ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ اور آپ کا رب وہ سب باتیں جانتا ہے جنہیں ان کے سینے پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔

وَ ہُوَ اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَہُ الۡحَمۡدُ فِی الۡاُوۡلٰی وَ الۡاٰخِرَۃِ ۫ وَ لَہُ الۡحُکۡمُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ اور وہی تو اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ثنائے کامل اسی کے لیے ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور حکومت اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔

70۔ ذاتاً لائق حمد و ثنا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ کے علاوہ دوسروں کے پاس جو کچھ ہے وہ ان کا ذاتی نہیں ہے، بلکہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ لہٰذا نہ اللہ سے پہلے کوئی کسی کمال کا مالک ہے، نہ بعد میں۔

وَ لَہُ الۡحُکۡمُ : فرماں روائی کا حق بھی اللہ کو حاصل ہے۔ مقام تکوین میں ہو یا مقام تشریع میں، صرف اس کا حکم نافذ ہو گا۔