قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمُ الَّیۡلَ سَرۡمَدًا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِضِیَآءٍ ؕ اَفَلَا تَسۡمَعُوۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ کہدیجئے: مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے؟کیا تم سنتے نہیں ہو؟

71۔ اگر اللہ کے علاوہ تمہارے معبودوں کے ہاتھ میں اس کائنات کی تدبیر ہے تو اس جاری نظام میں موجود لیل و نہار میں اپنے تدبیری عمل کا چھوٹا سا مظاہرہ کر کے دکھائیں اور رات کا سلسلہ اگر جاری رہے تو دن لانا اگر ممکن نہیں ہے تو تھوڑی سی روشنی ہی لا کر اپنی قدرت نمائی کریں۔ سب کو معلوم ہے کہ اللہ کے علاوہ یہ کام کوئی نہیں کر سکتا تو پھر غیر اللہ کے پاس کون سی تدبیر ہے؟

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمُ النَّہَارَ سَرۡمَدًا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِلَیۡلٍ تَسۡکُنُوۡنَ فِیۡہِ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ کہدیجئے: مجھے بتاؤ کہ اگر قیامت تک اللہ تم پر ہمیشہ کے لیے دن کو مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں رات لا دے جس میں تم سکون حاصل کرو؟ کیا تم (چشم بصیرت سے) دیکھتے نہیں ہو؟

وَ مِنۡ رَّحۡمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ لِتَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔ اور یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن کو (یکے بعد دیگرے) بنایا تاکہ تم (رات میں) سکون حاصل کر سکو اور (دن میں) اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید کہ تم شکر بجا لاؤ۔

73۔ دن اور رات کے بارے میں انسان غور نہیں کرتے کہ دن کی روشنی حیات بخش اور رات کی تاریکی سکون بخش ہونے کے باوجود یہ دونوں اگر یکے بعد دیگرے نہ آتے، بلکہ ہمیشہ دن ہوتا یا ہمیشہ رات ہوتی تو اس کرہ ارض پر زندگی مفقود ہوتی۔ یعنی اگر اللہ اس نظام کو زندگی کے لیے مناسب اور مربوط نہ بناتا تو کون ہے جو اسے مربوط بنائے؟

وَ یَوۡمَ یُنَادِیۡہِمۡ فَیَقُوۡلُ اَیۡنَ شُرَکَآءِیَ الَّذِیۡنَ کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ اور جس دن اللہ انہیں ندا دے گا اور فرمائے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم میرا شریک گمان کرتے تھے ؟

وَ نَزَعۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا فَقُلۡنَا ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ فَعَلِمُوۡۤا اَنَّ الۡحَقَّ لِلّٰہِ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿٪۷۵﴾

۷۵۔ اور ہم ہر امت سے ایک گواہ نکال لائیں گے پھر ہم (مشرکین سے) کہیں گے: اپنی دلیل پیش کرو، (اس وقت) انہیں علم ہو جائے گا کہ حق بات اللہ کی تھی اور جو جھوٹ باندھتے تھے وہ سب ناپید ہو جائیں گے۔

75۔ ہر امت سے ایک گواہ پیش کیا جائے گا۔ یہ گواہ ایسے ہوں گے جن کی گواہی کے بعد کسی قسم کی دلیل کارگر ثابت نہ ہو گی۔ اس گواہی کے بعد اللہ تعالیٰ کی حقانیت بھی واضح ہو جائے گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس گواہی کی نوعیت وہ نہ ہو گی جو ہماری دنیا میں متعارف ہے۔ گواہ کے بارے میں پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ گواہ وہ ہستی بن سکتی ہے جو اعمال کا مشاہدہ کرے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ گواہ وہ ہو گا جس کی گواہی کے بعد حقائق آشکار اور اللہ کی حقانیت روشن ہو جائے گی۔

اِنَّ قَارُوۡنَ کَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰی فَبَغٰی عَلَیۡہِمۡ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنَ الۡکُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَۃِ اُولِی الۡقُوَّۃِ ٭ اِذۡ قَالَ لَہٗ قَوۡمُہٗ لَا تَفۡرَحۡ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡفَرِحِیۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ بے شک قارون کا تعلق موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان سے سرکش ہو گیا اور ہم نے قارون کو اس قدر خزانے دیے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کے لیے بھی بارگراں تھیں، جب اس کی قوم نے اس سے کہا: اترانا مت یقینا اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا،

76۔ قارون کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔ اس نے اپنی قوم سے غداری کی اور وہ فرعون سے جا ملا اور اس کا مقرب بن گیا، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت میں فرعون اور ہامان کے بعد وہ سب سے آگے تھا۔ بائبل میں اس کا نام قاروح آیا ہے اور اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی قرار دیا گیا ہے۔

بائبل نے قارون کی دولت کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی کنجیاں تین سو خچروں کا بوجھ بن جاتی تھیں۔ قرآن نے اس کی تصحیح کی اور فرمایا: اس کے خزانوں کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کے لیے بار گراں تھیں۔ مال کے بارے میں ادیان کا مؤقف ایک جیسا ہے کہ مال خود مقصد نہیں ہوتا بلکہ مال ایک ذریعہ اور ایک مقدس مقصد کے لیے وسیلہ ہے۔ وہ مقدس مقصد جہاں آخرت ہے، وہاں حیات دنیوی کی جائز ضروریات کی فراہمی بھی ہے: وَ لَا تَنۡسَ نَصِیۡبَکَ مِنَ الدُّنۡیَا۔۔۔۔

وَ ابۡتَغِ فِیۡمَاۤ اٰتٰىکَ اللّٰہُ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنۡسَ نَصِیۡبَکَ مِنَ الدُّنۡیَا وَ اَحۡسِنۡ کَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰہُ اِلَیۡکَ وَ لَا تَبۡغِ الۡفَسَادَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔ اور جو (مال) اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، البتہ دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد پھیلنے کی خواہش نہ کر یقینا اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔

قَالَ اِنَّمَاۤ اُوۡتِیۡتُہٗ عَلٰی عِلۡمٍ عِنۡدِیۡ ؕ اَوَ لَمۡ یَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ قَدۡ اَہۡلَکَ مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مَنۡ ہُوَ اَشَدُّ مِنۡہُ قُوَّۃً وَّ اَکۡثَرُ جَمۡعًا ؕ وَ لَا یُسۡـَٔلُ عَنۡ ذُنُوۡبِہِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ قارون نے کہا: یہ سب مجھے اس مہارت کی بنا پر ملا ہے جو مجھے حاصل ہے، کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی امتوں کو ہلاکت میں ڈال دیا جو اس سے زیادہ طاقت اور جمعیت رکھتی تھیں اور مجرموں سے تو ان کے گناہ کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا۔

78۔ یہ مال و دولت میری اپنی مہارت اور ہنر مندی کا نتیجہ ہے۔ اس میں کسی غیبی طاقت کا کوئی دخل نہیں۔ مادی انسان کی سوچ قدیم ایام سے یہی رہی ہے کہ جو عقل و فکر، مہارت، ہنر اور دولت اس کے پاس ہے وہ کسی کی عطاکردہ نہیں، بلکہ اس نے خود یہ چیزیں اپنے لیے بنائی ہیں۔

فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ فِیۡ زِیۡنَتِہٖ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا یٰلَیۡتَ لَنَا مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ قَارُوۡنُ ۙ اِنَّہٗ لَذُوۡ حَظٍّ عَظِیۡمٍ﴿۷۹﴾

۷۹۔(ایک روز) قارون بڑی آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا تو دنیا پسند لوگوں نے کہا: اے کاش! ہمارے لیے بھی وہی کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے، بے شک یہ تو بڑا ہی قسمت والا ہے۔

79۔ سطحی سوچ رکھنے والے اور راز حیات سے ناواقف لوگ دنیا کے مال و منال کو ہی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہمارے معاشرے میں خوشحال لوگ کہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے صرف دنیاوی زندگی ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَیۡلَکُمۡ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّمَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۚ وَ لَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور جنہیں علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے: تم پر تباہی ہو! اللہ کے پاس جو ثواب ہے وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کے لیے اس سے کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والے ہی حاصل کریں گے۔

80۔ جبکہ راز حیات کا علم رکھنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ مال و منال خوش قسمتی نہیں ہے، نہ ایسے لوگ خوشحال ہوتے ہیں، بلکہ دولت مند لوگ بے چین اور بے سکون ہوتے ہیں۔ دنیا پر آخرت کو ترجیح وہ لوگ دے سکتے ہیں جو اپنی خواہشات پر تسلط رکھتے ہوں اور وہ صبر والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

وَ لَا یُلَقّٰہَاۤ میں ضمیر ثواب کی طرف ہے۔ ثواب مَثُوۡبَۃٌ کے معنی میں ہے یا اس کلمۃ کی طرف ہے جو اہل علم نے کہا ہے وہ کلمہ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیۡرٌ ہے۔