وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰىہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۴۷﴾

۲۴۷۔ اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا: اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے، کہنے لگے: اسے ہم پر بادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا؟ جب کہ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اور وہ کوئی دولتمند آدمی تو نہیں ہے، پیغمبر نے فرمایا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عنایت کرے اور اللہ بڑی وسعت والا، دانا ہے۔

246۔ 247۔ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تقریباً تین صدی بعد کا ہے۔ اس وقت بنی اسرائیل کے متبرک تابوت سمیت فلسطین کا بیشتر علاقہ عمالقہ کے قبضے میں تھا۔ اس لیے جنگ ناگزیر ہو چکی تھی اور اس زمانے میں بادشاہ کا پہلا فرض یہ تھا کہ فوج کی سپہ سالاری کرے، اس لیے بنی اسرائیل نے اپنے وقت کے پیغمبر حضرت شمویل علیہ السلام سے ایک بادشاہ کے تقرر کی درخواست کی۔ چونکہ خود حضرت شمویل علیہ السلام بہت بوڑھے ہو چکے تھے، لہٰذا حضرت شمویل علیہ السلام نے حضرت طالوت ابن کش کو بادشاہ مقرر کیا۔ ممکن ہے طالوت ان کا لقب ہو، چونکہ توریت میں ان کا نام”ساول“ saul آیا ہے۔ ان کا زمانہ حکومت 1012 سے 1028 قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ ان کے تقرر پر بنی اسرائیل نے یہ کہکر اعتراض کیا کہ بادشاہی کے لیے ہم اس سے زیادہ حقدار تھے (شاید قبائلی اور خاندانی طور پر)، ثانیاً یہ شخص فقیر ہے، دولت مند نہیں ہے۔ جواب میں تین نکات بیان ہوئے۔٭ طالوت کا انتخاب اللہ کا انتخاب ہے۔ ٭ وہ عالم ہے۔ ٭ شجاع ہے۔ اس کے بعد ایک ضابطہ ارشاد فرمایا: اللہ جسے چاہتا ہے بادشاہی عطا فرماتا ہے۔ یعنی کائنات میں حاکمِ اعلیٰ اللہ کی ذات ہے۔