آیت 243
 

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ ہُمۡ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحۡیَاہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ﴿۲۴۳﴾

۲۴۳۔ کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا، بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

تفسیر آیات

اس آیت کی تفسیر میں غیر امامیہ مفسرین میں بے تحاشا اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ ایک تاریخی واقعے کی طرف اشارہ ہے یا صرف ایک مثل ہے یاکسی قوم کی شکست کو موت اور اس کے بعد فتح کو حیات کہا گیاہے یا کسی قوم کی ایک نسل کی ناکامی کو موت اور دوسری نسل کی کامیابی کو حیات کہا گیا ہے وغیرہ۔

یہاں وہ روایت قابل اعتماد ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا:

اللہ نے اس قوم کو زندہ فرمایا تھا جو طاعون کی بیماری سے بچنے کے لیے بھاگ نکلی تھی۔ یہ لوگ بے شمار تھے۔ پھر اللہ نے ایک طویل عرصے کے لیے انہیں موت کی نیند سلا دیا یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں تک گل سڑ کر بکھر گئیں اور وہ خاک ہو گئے۔ پھر جب اللہ نے چاہا کہ اپنی مخلوق کو زندہ دیکھے تو ایک نبی کو مبعوث فرمایا جنہیں حزقیل (ع) کہتے تھے۔ حضرت حزقیل (ع) نے دعا کی تو ان کے جسم یکجا ہو گئے، ان میں روح پلٹ آئی اور جس حالت میں وہ مرے تھے، اسی حالت میں کھڑے ہو گئے اور ایک آدمی بھی کم نہیں نکلا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک لمبی مدت تک زندگی پائی۔ {اصول الکافی ۸: ۱۹۸ میں یہ واقعہ مختلف لفظوں میں نقل ہوا ہے۔ اس میں اس طرح ہے: یہ لوگ شام کی کسی بستی سے نکلے تھے اور ان کی تعداد ستر ہزار (۷۰۰۰۰) تھی}

اہم نکات

۱۔ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب چاہے زندگی دے۔ موت سے فرار ممکن نہیں: فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحۡیَاہُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ یہ آیت رجعت کے عقیدے پر بھی مؤید ثابت ہو سکتی ہے کہ خدا قیامت سے پہلے اگر کسی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہے تو اس کے لیے ممکن ہے۔

۳۔ اکثریت، معیار فضیلت نہیں، کیونکہ اکثریت ناشکروں کی ہوتی ہے: وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ۔

تحقیق مزید: الکافی ۸ : ۱۷۳۔ بحار الانوار ۶ : ۱۲۲، ۵۳: ۷۳۔


آیت 243