آیات 246 - 252
 

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ قَالَ ہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا ؕ قَالُوۡا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ قَدۡ اُخۡرِجۡنَا مِنۡ دِیَارِنَا وَ اَبۡنَآئِنَا ؕ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ تَوَلَّوۡا اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴿۲۴۶﴾

۲۴۶۔کیا آپ نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کی ایک جماعت (کو پیش آنے والے حالات) پر نظر نہیں کی جس نے اپنے نبی سے کہا: آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کریں تاکہ ہم راہ خدا میں جنگ کریں، (نبی نے) کہا: ایسا نہ ہو کہ تمہیں جنگ کا حکم دیا جائے اور پھر تم جنگ نہ کرو، کہنے لگے:ہم راہ خدا میں جنگ کیوں نہ کریں جب کہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے بچوں سے جدا کیے گئے ہیں؟ لیکن جب انہیں جنگ کا حکم دیا گیا تو ان میں سے چند اشخاص کے سوا سب پھر گئے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰىہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۴۷﴾

۲۴۷۔ اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا: اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے، کہنے لگے: اسے ہم پر بادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا؟ جب کہ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اور وہ کوئی دولتمند آدمی تو نہیں ہے، پیغمبر نے فرمایا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عنایت کرے اور اللہ بڑی وسعت والا، دانا ہے۔

وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اٰیَۃَ مُلۡکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَ اٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۴۸﴾٪

۲۴۸۔ اور ان سے ان کے پیغمبر نے کہا: اس کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے سکون و اطمینان کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ و ہارون کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہیں جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، اگر تم ایمان والے ہو تو یقینا اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوۡتُ بِالۡجُنُوۡدِ ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبۡتَلِیۡکُمۡ بِنَہَرٍ ۚ فَمَنۡ شَرِبَ مِنۡہُ فَلَیۡسَ مِنِّیۡ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَطۡعَمۡہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡۤ اِلَّا مَنِ اغۡتَرَفَ غُرۡفَۃًۢ بِیَدِہٖ ۚ فَشَرِبُوۡا مِنۡہُ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ ؕ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ہُوَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۙ قَالُوۡا لَا طَاقَۃَ لَنَا الۡیَوۡمَ بِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوا اللّٰہِ ۙ کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۲۴۹﴾

۲۴۹۔جب طالوت لشکر لے کر روانہ ہوا تو اس نے کہا: اللہ ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے، پس جو شخص اس میں سے پانی پی لے وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہو گا مگر یہ کہ کوئی صرف ایک چلو اپنے ہاتھ سے بھر لے (تو کوئی مضائقہ نہیں) پس تھوڑے لوگوں کے سوا سب نے اس (نہر) میں سے پانی پی لیا، پس جب طالوت اور اس کے ایمان والے ساتھی نہر پار ہو گئے تو انہوں نے (طالوت سے) کہا: آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے، مگر جو لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ انہیں خدا کے روبرو ہونا ہے وہ کہنے لگے: بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

وَ لَمَّا بَرَزُوۡا لِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۲۵۰﴾ؕ

۲۵۰۔اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے پر نکلے تو کہنے لگے: ہمارے رب! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتحیاب کر۔

فَہَزَمُوۡہُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۟ۙ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۲۵۱﴾

۲۵۱۔ چنانچہ اللہ کے اذن سے انہوں نے کافروں کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطا فرمائی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھا دیا اور اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کا بعض کے ذریعے دفاع نہ فرماتا رہتا تو زمین میں فساد برپا ہو جاتا، لیکن اہل عالم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔

تِلۡکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتۡلُوۡہَا عَلَیۡکَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۲۵۲﴾

۲۵۲۔ یہ ہیں اللہ کی آیات جنہیں ہم حق کے ساتھ آپ پر تلاوت کرتے ہیں اور آپ یقینا مرسلین میں سے ہیں۔

تشریح کلمات

ملأ:

( م ل ء ) کسی امر پر مجتمع ہونے والی جماعت۔ یعنی اہل حل و عقد۔

سَکِیۡنَۃٌ:

( س ک ن ) سکون سے۔ فعیل کے وزن پر ہے۔ بہت زیادہ سکون و اطمینان۔

تابوت:

( ت و ب ) صندوق۔ اصل میں توب کا معنی رجوع کرنا ہے اور چونکہ انسان بار بار صندوق کی طرف رجوع کرتا ہے، اس لیے صندوق کو تابوت کہا جاتا ہے۔

فِئَۃٍ:

( ف ی ء ) گروہ۔ جماعت

یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تقریباً تین صدی بعد اور کوئی ہزار گیارہ سو سال قبل از مسیح کا واقعہ ہے۔ سموئیل نبی (ع) کا زمانہ تھا اور وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ ان کی کوئی لائق اولاد نہ تھی۔ فلسطین کا اکثر علاقہ عمالقہ کے زیر تسلط تھا۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کا متبرک تابوت بھی دشمن کے قبضے میں تھا۔

توریت میں اس کا ذکر یوں ہوا ہے:

چنانچہ فلسطینی لڑے اور بنی اسرائیل نے شکست کھائی۔ ہر ایک اپنے اپنے خیمے کو بھاگا اور وہاں بڑی خونریزی ہوئی۔ تیس ہزار اسرائیلی مارے گئے اور خدا کا صندوق لوٹا گیا۔ {توریت ۴: ۱۰}

لہٰذا پنے وطن اور اپنے مقدسات کو دشمن سے آزاد کرانے کے لیے ایک جنگ ناگزیر تھی۔ اس زمانے میں بادشاہ کا پہلا فرض یہ تھا کہ فوج کی سپہ سالاری کرے۔ چنانچہ توریت میں آیا ہے :

ہم تو ایک بادشاہ چاہتے ہیں جو ہمارے اوپر مقرر ہو تاکہ ہم بھی دیگر گروہوں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ عدل کرے اور ہمارے آگے چلے اور ہمارے لیے لڑائی لڑے۔ {توریت ۸: ۱۹۔ ۲۰}

نیز دیگر قوموں میں چونکہ بادشاہت کا نظام ہی رائج تھا، اس لیے بنی اسرائیل ان سے متاثر ہو کر اپنے نبی سے شہنشاہی نظام حکومت کا مطالبہ کرنے لگے۔ لوگوں کے اس مطالبے کو توریت کے مطابق حضرت سموئیل (ع) نے سخت ناپسند کیا، لیکن اللہ کے حکم پر یہ مطالبہ منظور کیا گیا اورطالوت بادشاہ مقرر ہوئے۔

طالوت ابن کش بنی اسرائیل کے پہلے بادشاہ تھے۔ توریت کے مطابق وہ طویل القامت تھے۔ شاید طویل القامت ہونے کی بنا پر انہیں طالوت کہا گیا ہو، کیونکہ عبرانی اور عربی زبانیں قریب ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طالوت ان کا لقب ہو۔ کیونکہ توریت میں ان کا نام ساول Saul آیا ہے۔ ان کا زمانۂ حکومت ۱۰۱۲ قبل مسیح تک بتایا جاتا ہے۔ ان کا تعلق قبیلے بنیامین سے تھا جو بنی اسرائیل کے تمام قبیلوں میں سب سے چھوٹا قبیلہ تھا اور اتفاقاً اس قبیلے کے سب سے چھوٹے گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ چنانچہ حضرت سموئیل (ع) کی پیشکش کے جواب میں طالوت نے کہا :

کیا میں بنیامین یعنی اسرائیل کے سب سے چھوٹے قبیلے سے نہیں؟ اور کیا میرا گھرانہ بنیامین کے قبیلے کے سب گھرانوں میں سب سے چھوٹا نہیں؟ {۹ : ۱۹}

اولاد یعقوب (ع) یعنی بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان میں نسل اور خاندان کی حیثیت کا مسئلہ حد سے تجاوز کرتے ہوئے ایک عقیدے کی شکل اختیار کر چکا تھا کہ نبوت بنی لاوہ کا حق ہے اور حکومت آل یہودا کا۔ ادھر مالی اعتبار سے بھی طالوت کا تعلق غریب خاندان سے تھا، اس لیے دوسرے قبائل کے افراد نے ان کی بادشاہت پر دو اعتراض کیے:

۱۔ وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ ۔ ’’بادشاہی کے اس سے زیادہ حقدار ہم خود ہیں۔‘‘ شاید ان کا مطلب یہ تھا کہ خاندانی اور نسلی طور پر ان کا قبیلہ اس سے زیادہ حقدار ہے۔

۲۔ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ۔ ’’وہ توکوئی دولتمند آدمی نہیں ہے۔‘‘

اس نسلی اور اقتصادی تفریق پر مبنی اعتراض کے جواب میں اللہ کے نبی نے تین معیار بیان کیے:

الف۔ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰىہُ عَلَیۡکُمۡ ۔ ’’اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسے منتخب کیا ہے‘‘۔ اس انتخاب کا خدا کی طرف سے ہونا ناقابل تردید حقیقت ہے۔ بنی اسرائیل کا اپنے نبی سے بادشاہ کے تقرر کا مطالبہ کرنا بذات خود بتاتا ہے کہ امر حکومت ان کے نزدیک حکم خدا پر موقوف ہے۔

ب۔ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ ۔ ’’اللہ نے اسے علم کی فراوانی سے نوازا ہے۔‘‘ اگر حکمران عالم نہ ہو تو جاہل ہو گا اور حضرت علی (ع) کے فرمان کے مطابق:

لَا تَرَی الْجَاہِلَ اِلَّا مُفْرِطاً اَوْ مُفَرِّطاً ۔ {نہج البلاغۃ۔ کلمات قصار حکمت: ۷۰ ص ۸۳۳۔ ترجمہ مفتی جعفر حسین}

جاہل کو نہ پاؤ گے مگر حد سے آگے بڑھا ہوا یا اس سے بہت پیچھے۔

لہٰذا حکمرانوں کے لیے زندگی کے مصالح و مفاسد کا علم رکھنا لازم ہے۔

ج۔ وَ الۡجِسۡمِ ۔ ان کوجسمانی قوت کی فراوانی سے بھی نوازا ہے۔ یعنی علمی صلاحیت اور فکری لیاقت کے ساتھ عملی نفاذ اور دشمن سے ٹکرانے کے لیے طالوت میں مادی اور جسمانی طاقت و شجاعت بھی موجود ہے۔ کیونکہ بزدل اپنے علم پر عمل کرنے اور اسے نافذ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

اللہ کی حاکمیت :آخر میں ایک ضابطہ بیان فرمایا: وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ۔ ’’ اللہ اپنی بادشاہت جسے چاہے عطا کرتا ہے۔ ‘‘ کیونکہ کائنات کاحاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی۔۔۔ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ {۳ آل عمران : ۲۶} ہے۔ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ۔۔۔۔ {۷ اعراف: ۵۴} امر اور خلق اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی وہ تشریع اور قانون سازی کا اسی طرح مالک ہے جس طرح خلق و ایجاد کا مالک ہے۔ لہٰذا وہ اپنی مشیت کے مطابق جسے چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اللہ کی مشیت معاذ اللہ عبث اور بلا حکمت و مصلحت ہوتی ہے۔ جس طرح نظام تخلیق میں اللہ کی مشیت بلا حکمت و مصلحت نہیں ہوتی اور وہ کوئی چیز عبث خلق نہیں فرماتا۔ اسی طرح جسے بھی منتخب فرمائے اسے عبث نہیں، بلکہ ایک مصلحت و حکمت کے تحت منتخب فرماتا ہے۔

تابوت: بنی اسرائیل اسے ’’عہد کا صندوق ‘‘ کہتے تھے۔ ایک جنگ میں فلسطینی مشرکین نے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا۔ اس صندوق کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں آل موسیٰ اور آل ہارون کے باقی ماندہ تبرکات رکھے ہوئے تھے۔ تواریخ و احادیث سے اس صندوق کی درج ذیل خصوصیات سامنے آتی ہیں:

۱۔ حضرت موسیٰ (ع) کی والدہ نے حضرت موسیٰ (ع) کو اسی صندوق میں رکھ کر دریا میں بہا دیا تھا۔

۲۔ اس میں وہ الواح (تختیاں) تھیں جو طور سینا میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (ع) کوعنایت فرمائی تھیں۔

۳۔ توریت کا اصل نسخہ بھی اسی میں تھا جسے حضرت موسیٰ (ع) نے خود لکھ کر بنی لاوا کے سپرد کیا تھا۔

۴۔ مَن کی ایک بوتل اس صندوق میں تھی جو صحرا میں بنی اسرائیل کو اللہ کی طرف سے عنایت ہوتا رہا۔

۵۔ حضرت موسیٰ (ع) کا عصا اس صندوق میں تھا۔

۶۔ حضرت موسیٰ (ع) کی زرہ اس صندوق میں تھی۔

چنانچہ یہ صندوق بنی اسرائیل کے لیے نہا یت متبرک تھا اور وہ اسے فتح و نصرت کی علامت سمجھتے تھے۔ جب یہ ان کے ہاتھ سے چھن گیا تو وہ ہمت ہاربیٹھے۔

فرشتوں کی حفاظت میں: مشرکین اس صندوق کو جس شہر میں رکھتے، وہاں وبائیں پھوٹ پڑتیں۔ خوف کی وجہ سے انہوں نے اسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر اسے ہانک دیا۔ خدانے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ ان بیلوں کو شموئیل کے شہر کی طرف ہانک کر لے جائیں۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب طالوت کو بنی اسرائیل کا بادشاہ بنا دیاگیا تھا۔ صندوق کے واپس آنے سے بنی اسرائیل کو تقویت حاصل ہوئی۔ ان کے پست حوصلے بلند ہو گئے۔

آزمائش: سموئیل بنی اسرائیل کے اخلاقی انحطاط اور بے ہمتی کا مشاہدہ کرتے تھے۔ جنگجو اور بیکار افراد میں امتیاز کے لیے ایک آزمائش تجویز ہوئی۔ چنانچہ خشک صحراؤں میں سفرکے بعد جب وہ ایک نہر کے پاس پہنچے تو لشکرسے کہا گیا کہ اس نہر سے سیراب ہوکر پانی نہ پیا جائے۔ جو لوگ کچھ دیر کے لیے اپنی پیاس پر صبر نہ کر سکے وہ میدان جنگ میں اپنی جان پر کیسے کھیل سکتے تھے؟

جالوت: یہ شخص فلسطینی لشکر کا سردار اور نہا یت ہی قدآور شخص تھا۔ توریت میں اس کے قد و قامت کے بارے میں ہے کہ اس کا قد ۱۰ فٹ اور اس کا وزن تین من کے قریب تھا۔

داؤد (ع) : حضرت داؤد بن یسی بن حویبد لشکر طالوت میں عین اس وقت پہنچے جب جالوت بنی اسرا ئیل کی فوج کو دعوت مبارزہ دے رہا تھا اور اسرائیلی فوج میں سے کسی کو اس کے مقابلے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت داؤد (ع) میدان میں کود پڑے اور جالوت کو قتل کر دیا۔ اس کارنامے کے بعد حضرت داؤد (ع) ہر دلعزیز شخصیت بن گئے اور طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی۔ بعد میں وہی اسرائیلیوں کے پیشوا مقرر ہوئے۔

اہم نکات

۱۔ قوموں کی ترقی اور پیشرفت میں جہاد بالمال کو تقدیر ساز اہمیت حاصل ہے۔

۲۔ پچھلی قوموں کو بھی شکست و ریخت اور نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کی کامیابی اور سرخروئی کا واحد ذریعہ جہاد رہا ہے۔

۳۔ کسی فرد یا قوم کے لیے فرار باعث نجات نہیں، بلکہ اسے مصائب کا مقابلہ کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔

۴۔ بنی اسرائیل کا وطن اور ان کے مقدسات اس لیے لٹ گئے، کیونکہ وہ اپنے انبیاء (ع) کی تعلیمات سے منحرف ہوگئے تھے۔

۵۔ قوم پر فوری طور پر اعتماد کرنے سے پہلے انہیں تجرباتی مراحل سے گزارنا ضروری ہے۔

۶۔ جنگی قیادت کو چاہیے کہ وہ قوم کو مزید امتحانی مراحل سے گزار کر صرف قابل اعتماد لوگوں کے ساتھ میدان جنگ میں اترے۔چنانچہ طالوت نے ظاہری جوش و جذبے پر اعتماد نہیں کیا، بلکہ انہیں نہر کے پانی سے آزمایا توکامیاب ہونے والے تھوڑے رہ گئے: فَشَرِبُوۡا مِنۡہُ اِلَّا قَلِیۡلًا ۔

۷۔ جہاد بالسیف سے پہلے جہاد بالنفس کا امتحان لیا گیا۔ جہاد بالنفس میں ناکام ہونے والے جنگ سے بھی ہمت ہار بیٹھے: لَا طَاقَۃَ لَنَا الۡیَوۡمَ بِجَالُوۡتَ ۔۔۔۔

۸۔ اللہ کے مخلص بندوں کی تعداد قلیل ہوتی ہے: فَشَرِبُوۡا مِنۡہُ اِلَّا قَلِیۡلًا ۔۔۔۔

۹۔ طاقت کا توازن کفارکے ہاتھ میں نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے: رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا ۔۔۔۔

۱۰۔ ایمان و توکل سے لیس قلیل جما عت بحکم خدا کثیر دشمن پر غالب آسکتی ہے: کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۔۔۔۔

۱۱۔ سابقہ ادیان میں دینی قیادت کی ذمہ داری صرف دعوت و ارشاد، تعلیم و تربیت اور سیاسی قیادت پر نظر رکھنا تھی، جب کہ بادشاہ کے ذمے جنگ کی قیادت کرنا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے خود جنگ کی قیادت کا مطالبہ نہ کیا، بلکہ بادشاہ کے تقرر کا مطالبہ کیا، تاکہ اس کی زیر قیادت جنگ کر سکیں۔ لیکن اسلام میں نبی اور امام امور مملکت کے علاوہ جنگی امور میں بھی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

تحقیق مزید:

آیت ۲۴۶: بحار الانوار ۱۳: ۴۴۹۔ ۴۵۴۔ القصص للجزائری ص ۳۳۰۔ تفسیر القمی ۱ : ۸۱

آیت ۲۴۸: الکافی ۸ : ۳۱۷۔ تفسیر العیاشی ۱ : ۱۳۳۔ الفقیہ للطوسی ۴۷۲

آیت ۲۵۱: الکافی ۲ : ۴۵۱۔ الوسائل۱ : ۲۸


آیات 246 - 252