وَ الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ وَ یَخَافُوۡنَ سُوۡٓءَ الۡحِسَابِ ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ اور اللہ نے جن رشتوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور برے حساب سے بھی خائف رہتے ہیں۔

وَ الَّذِیۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً وَّ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عُقۡبَی الدَّارِ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ اور جو لوگ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے ہیں آخرت کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔

20 تا 22۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ آیت آل محمد علیہم السلام کی صلہ رحمی کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے اور یہ خود تیرے رشتہ داروں کے بارے میں بھی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم آیت کو ایک ہی مصداق میں بند کرو۔ (الکافی 2:56)

ان آیات میں صاحبان عقل کے سات اوصاف بیان فرمائے ہیں: ٭ وہ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ ٭ وہ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ ٭ وہ اپنے رب اور یوم حساب کا خوف رکھتے ہیں۔ ٭وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے صبر کرتے ہیں۔٭ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ ٭ وہ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ ٭ وہ نیکی کے ذریعے برائیوں کو دور کرتے ہیں۔

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَدۡخُلُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ کُلِّ بَابٍ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔(یعنی) ایسی دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا اور ان کی بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی اور فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔

سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ بِمَا صَبَرۡتُمۡ فَنِعۡمَ عُقۡبَی الدَّارِ ﴿ؕ۲۴﴾

۲۴۔ (اور کہیں گے) تم پر سلامتی ہو یہ تمہارے صبر کا صلہ ہے، پس عاقبت کا گھر کیا ہی عمدہ گھر ہے۔

23۔24 آخرت کا گھر وہ دائمی جنت ہو گی جس میں وہ اپنے تمام صالح اور نیک رشتہ داروں کے ساتھ رہیں گے۔ اگرچہ آیت میں باپ دادا، بیویوں اور اولاد کا ذکر ہے، لیکن ان تین رشتوں کے ذکر میں تمام رشتہ دار آ گئے، کیونکہ آباء میں باپ دادا آگئے۔ ازواج یعنی باپ دادا کی ازواج میں اولاد کی مائیں آ گئیں۔ ذریات میں بھائی بہن اور ان کی اولاد شامل ہو گئی۔ اس طرح نہایت مختصر الفاظ میں انسان کے خاندان کے اہم ترین افراد کا ذکر آگیا۔

سابق الذکر اوصاف میں سے فرشتے صرف صبر کا ذکر اس لیے کریں گے کہ باقی تمام اعمال کے لیے صبر درکار ہوتا ہے۔ صبر کے بغیر نہ اطاعت ہو سکتی ہے، نہ معصیت سے اجتناب۔

وَ الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۙ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ اللَّعۡنَۃُ وَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ الدَّارِ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور جو لوگ اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں منقطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ایسے ہی لوگوں پر لعنت ہے اور ان کے لیے ٹھکانا بھی برا ہو گا۔

25۔ صاحبان عقل کے مقابلے میں دنیا پرستوں کا ذکر آیا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے اور جو نیک اعمال صاحبان عقل انجام دیتے ہیں، یہ لوگ اس کے خلاف حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ وفائے عہد کی جگہ عہد شکنی کرتے ہیں۔ ان رشتوں کو قطع کرتے ہیں جنہیں جوڑنے کا حکم ہے اور وہ خوف خدا، خوف عاقبت، صبر و استقامت اور اقامہ نماز، راہ خدا میں انفاق اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرنے کی جگہ فساد پھیلاتے ہیں۔ مذکورہ اعمال کے مقابلے میں فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ کے ذکر سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ان اعمال میں اصلاح فی الارض مضمر ہے۔

اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ اللہ جس کی چاہے روزی بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے اور لوگ دنیاوی زندگی پر خوش ہیں جب کہ دنیاوی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک ( عارضی) سامان ہے۔

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ اَنَابَ ﴿ۖۚ۲۷﴾

۲۷۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں: اس (رسول) پر اپنے رب کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں نازل نہیں ہوتا؟ کہدیجئے: اللہ جسے چاہے گمراہ کر دیتا ہے اور جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتا ہے اپنی طرف اس کی رہنمائی فرماتا ہے۔

27۔ ان کا ایمان نہ لانا معجزات کے فقدان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ توجہ الی اللہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے، جس کی دجہ سے اللہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے تو وہ گمراہ ہو جاتے ہیں۔

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾

۲۸۔ (یہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہو جاتے ہیں یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔

28۔ انسان کے وجود کے اندر ایک اور انسان ہے جسے ہم ضمیر، وجدان، قلب اور فطرت کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ ہمارا داخلی انسان یعنی ہمارا ضمیر اور وجدان کبھی کوئی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ لیکن ظاہری انسان جب کبھی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے تو داخلی انسان سرزنش اور محاسبہ کرتا ہے، جسے ہم ضمیر کی ملامت کہتے ہیں۔ اس صورت میں ان دونوں انسانوں میں داخلی جنگ چھڑ جاتی ہے اور انسان اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر ظاہری انسان داخلی انسان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے تو داخلی ہم آہنگی اور آشتی سے انسان کو سکون ملتا ہے۔ ذکر خدا فطری تقاضوں کے عین مطابق ہونے اور ضمیر، وجدان سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے سکون حاصل ہوتا ہے۔

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوۡبٰی لَہُمۡ وَ حُسۡنُ مَاٰبٍ﴿۲۹﴾

۲۹۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیے ان کی نیک نصیبی ہے اور ان کے لیے بہترین ٹھکانا ہے۔

کَذٰلِکَ اَرۡسَلۡنٰکَ فِیۡۤ اُمَّۃٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہَاۤ اُمَمٌ لِّتَتۡلُوَا۠ عَلَیۡہِمُ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ ہُمۡ یَکۡفُرُوۡنَ بِالرَّحۡمٰنِ ؕ قُلۡ ہُوَ رَبِّیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ اِلَیۡہِ مَتَابِ ﴿۳۰﴾

۳۰۔ (اے رسول ) اسی طرح ہم نے آپ کو ایسی قوم میں بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں تاکہ آپ ان پر اس (کتاب) کی تلاوت کریں جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے جبکہ یہ لوگ خدائے رحمن کو نہیں مانتے،کہدیجئے: وہی میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے۔

30۔ اے محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کا مبعوث ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے بھی ایسی قومیں گزری ہیں جن میں ہم نے رسول بھیجے۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داری یہ ہے کہ جو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف وحی ہوئی ہے اس کی تبلیغ کریں، اگرچہ وہ خدائے رحمٰن کو نہیں مانتے۔ لفظ رحمٰن کے ذکر سے اس مطلب کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ رحمت کے منکر ہیں جس میں دین و دنیا دونوں کی سعادت مضمر ہے۔