آیات 20 - 22
 

الَّذِیۡنَ یُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ وَ لَا یَنۡقُضُوۡنَ الۡمِیۡثَاقَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور پیمان کو نہیں توڑتے۔

وَ الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ وَ یَخَافُوۡنَ سُوۡٓءَ الۡحِسَابِ ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ اور اللہ نے جن رشتوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور برے حساب سے بھی خائف رہتے ہیں۔

وَ الَّذِیۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً وَّ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عُقۡبَی الدَّارِ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ اور جو لوگ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے ہیں آخرت کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔

تشریح کلمات

وَّ یَدۡرَءُوۡنَ:

( د ر ء ) الدَّارُ کے معنی ایک طرف مائل ہو جانے کے ہیں۔ اسی سے دور کرنے، دفع کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں درء ت عنہ ۔ میں نے اس سے دفع کیا۔

تفسیر آیات

اس آیہ شریفہ میں اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ، صاحبان عقل کے سات اوصاف بیان فرمائے ہیں:

۱۔ الَّذِیۡنَ یُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ: وہ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ جو عہد بزبان فطرت اللہ سے کیا ہے۔ میثاق فطرت وہ میثاق ہے جو دیگر تمام فروعی عہد و میثاق کے لیے اساس کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ وہی عہد ہے جو نسل آدم سے ابتدائے فطرت میں لیا گیا تھا اور خود اس کو اپنے اوپر گواہ بنا کر پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف آیت ۱۷۲۔

۲۔ وَ الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ: وہ ان رشتوں کو قائم رکھتے ہیں جن کو قائم رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ آیت کے اطلاق میں وہ تمام رشتے شامل ہیں جنہیں قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ان میں صلہ رحم شامل ہے اور صلہ ولایت بھی اس کے واضح مصادیق میں سے ہے۔ یعنی صلہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

نَزَلَتْ فِی رَحِمِ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ وَ آلِہِ السَّلَامُ وَ قَدْ تَکُوُنُ فِی قَرَابَتِکَ ثُمَّ قَالَ فَلَا تَکُونَنَّ مِمَّنْ یَقُولُ لِلشُّئیْئِ اِنَّہٗ فِی شِیْئٍ وَاحِدٍ ۔ ( اصول کافی۲: ۱۵۶)

یہ آیت آل محمد (ع) سے صلہ رحمی کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے اور یہ خود تیرے رشتوں کے بارے میں بھی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آیت کو تم ایک ہی مصداق میں بند کرو۔

۳۔ وَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ: وہ اپنے رب کا خوف رکھتے اور روز حساب سے بھی خائف رہتے ہیں۔ اللہ کی عظمت و جلالت سے خوف کرتے ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ جو سلوک بندوں کے ساتھ فرماتا ہے اس سے خوف نہیں ہے کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے یا ممکن ہے ذات اللہ سے خوف نہیں بلکہ عدل الٰہی سے خائف رہتے ہیں۔ اس صورت میں برے حساب اور اللہ سے ڈرنے کا مطلب ایک ہی ہے۔

برُے حساب سے مراد جیسا کہ احادیث میں آیا ہے، ناانصافی نہیں ہے بلکہ پورا حساب لینا ہے۔ (تفسیر عیاشی)

۴۔ وَ الَّذِیۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِمۡ: وہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر صبر کرتے ہیں۔ وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے گرسنگی پر صبر کرتے ہیں۔مال حرام نہیں کھاتے۔ صبر عن المعصیۃ ۔ وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے روزہ کی بھوک اور پیاس پر صبر کرتے ہیں۔ صبر علی الطاعۃ ۔ وہ مال و اولاد کے ہاتھ سے جانے پر بھی صبر کرتے ہیں کہ کہیں ناشکری نہ ہو؟ صبر عند المصیبۃ ۔

۵۔ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ: نماز قائم کرتے ہیں۔ خود بھی نماز پڑھتے ہیں اور معاشرے میں نماز کو رائج کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

۶۔ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ: رزق الٰہی سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ پوشیدہ اس لیے کرتے ہیں کہ ریاکاری کا شائبہ نہ آنے پائے اور علانیہ اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ دوسروں میں بھی یہ سوچ عام ہو جائے۔

۷۔ وَّ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ: وہ نیکی کے ذریعے برائی کو دور کر دیتے ہیں۔ اس کی کئی صورتیں ہیں:

الف: کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اسے نیکی بجا لا کر مٹا دیتے ہیں کیونکہ ان الحسنات یذھبن السئیات ۔ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔

ب: کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو اسے توبہ کے ذریعے دور کر دیتے ہیں کیونکہ تائب بے گناہ کی طرح ہے۔

ج: کسی اور سے برائی سرزد ہو جاتی ہے اور وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اس برائی کے مقابلے میں احسان کر کے اسے دور کر دیتے ہیں۔

د: کسی سے کوئی برائی سرزد ہو جاتی ہے تو وہ اس منکر سے منع کرتا ہے جو ایک نیکی ہے۔ اس سے برائی دور ہو جاتی ہے۔

آیت کے اطلاق میں یہ تمام باتیں شامل ہیں۔

اہم نکات

۱۔ مومن وہ ہے جو محراب کا عابد، میدان کا صابر اور سخی ہو۔

۲۔ مومن سے جب گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو وہ اس سے باعزت بری الذمہ ہونے کا چارہ کار سوچتا ہے۔ وہ ہے نیکی بجا لانا: وَّ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ ۔۔۔۔

۳۔ مؤمن اپنے گناہ کا تدارک نیکی سے کرتا ہے۔


آیات 20 - 22