ایمان ابو طالب


مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرۡبٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔نبی اور ایمان والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہ بات ان پر عیاں ہو چکی ہے کہ وہ جہنم والے ہیں۔

113۔ شرک، اللہ کی وحدانیت کے ساتھ بڑی گستاخی اور ناقابل معافی جرم ہے۔ اس آیت کی شان نزول میں متعدد روایات ہیں۔ سیاق آیت سے قریب روایت یہ ہے کہ کچھ اصحاب نے کہا: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لیے استغفار کیا ہے تو ہم بھی اپنے آبا و اجداد کے لیے استغفار کیوں نہ کریں؟

مگر غیر امامیہ کے صحاح میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات کے موقع پر نازل ہوئی ہے جب حضرت ابوطالب علیہ السلام کی طرف سے کلمہ پڑھنے سے انکار کے باوجود نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے استغفار کیا۔ یہ روایت از لحاظ متن و سند قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ اولاً سورئہ توبہ سنہ 9 ہجری میں نازل ہوئی ہے جبکہ حضرت ابو طالب علیہ السلام نے ہجرت سے پہلے وفات پائی ہے۔ ثانیاً اس کا راوی سعید بن مسیب ناصبی ہے جیسا کہ واقدی نے لکھا ہے کہ اس نے امام زین العابدین علیہ السلام کے جنازے میں شرکت تک گوارا نہیں کی۔ ثالثاً اس آیت کی شان نزول میں روایات مضطرب ہیں۔ مثلاً غیر امامیہ کے مصادر میں ابن عباس، ابن مسعود اور عطیہ کی طرف سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی والدہ حضرت آمنہ کے لیے استغفار کیا تو اس آیت کے ذریعے منع کیا گیا۔(معاذ اللہ) (المنار2:58)

اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ (اے رسول) جسے آپ چاہتے ہیں اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔

56۔ غیر امامیہ مصادر میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابو طالب علیہ السلام کے عدم ایمان کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس کے راوی ابن عباس اور ابوہریرہ ہیں۔ یہ دونوں واقعہ کے راوی نہیں بن سکتے، کیونکہ ابن عباس ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام کی وفات کے وقت وہ شیر خوار تھے اور ابوہریرہ ہجرت کے سات سال بعد ایمان لائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان ابو طالب علیہ السلام کا مسئلہ بنی امیہ نے صرف حضرت علی علیہ السلام کی تنقیص کے لیے اٹھایا، ورنہ اس سے پہلے ایمان ابو طالب علیہ السلام ایک مسلمہ بات تھی۔ چنانچہ معاویہ نے ایک مرتبہ حضرت عقیل سے طنزاً کہا: آپ کا چچا ابولہب جہنم میں کس جگہ ہے؟ حضرت عقیل نے فی البدیہ کہا: اذا دخلت النار تجدہ علی یمینک مفروشا عمتک ام جمیل ۔ جب تم خود جہنم میں جاؤ گے تو اپنی دائیں جانب اپنی پھوپھی ام جمیل کے ساتھ اسے دیکھ لو گے۔ اگر ابوطالب کا مسلمان نہ ہونا اس وقت مسلم ہوتا تو معاویہ طنز و تحقیر میں باپ کو چھوڑ کر چچا کا ذکر نہ کرتا۔