آیت 56
 

اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ (اے رسول) جسے آپ چاہتے ہیں اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔

شان نزول: اہل سنت کے مصادر میں کثرت سے یہ روایت موجود ہے کہ یہ آیت حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات کے موقع پر نازل ہوئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوطالب علیہ السلام سے کہا: یا عم قل لا الہ الا اللہ ۔ اے چچا! لا الٰہ الا اللہ پڑھیں۔ ابو طالب نے انکار کیا اور کہا: میں عبد المطلب کی ملت پر دنیا سے جانا پسند کروں گا۔ اس مضمون کی روایت کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں جگہ مل گئی ہے۔

ہم روایات کے بارے میں بعد میں گفتگو کریں گے۔ پہلے ہم اس کے شان نزول کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے کہ تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ آیت وفات ابو طالب علیہ السلام کے موقع پر نازل ہوئی ہو۔

تحقیق کے مطابق حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات سنہ دس بعثت میں ہجرت سے تین سال چار ماہ پہلے ہوئی ہے اور یہ سورہ ہجرت کے دنوں میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی یہ سورہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات کے تین سال بعد نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ آیہ اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ اسی سورہ کی ۸۵ ویں آیت ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے: جس نے آپ پر قرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے وہ آپ کو بازگشت (مکہ) تک پہنچانے والا ہے۔ بغوی لکھتے ہیں: اکثر مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ معاد سے مراد مکہ ہے اور اکثر کے نزدیک یہ آیت مقام جحفہ میں نازل ہوئی جب آپؐ مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ خود صحیح بخاری باب التفسیر، سنن نسائی باب التفسیر و دیگر مفسرین کے نزدیک ہجرت کے موقع پر مقام جحفہ میں نازل ہوئی ہے۔ اگر وفات حضرت ابوطالب علیہ السلام سے پہلے یہ آیت نازل ہو گئی ہوتی تو یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ آیت از باب تطبیق وفات ابو طالب کے موقع پر تلاوت کی گئی ہے۔ اس طرح ابو طالب اس آیت کا مصداق قرار پاسکے۔ مفسرین یہ نہیں کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت وفات ابو طالب علیہ السلام کے موقع پر تلاوت فرمائی بلکہ کہتے ہیں: یہ آیت اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ: آپ جسے چاہتے ہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ ہدایت کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت راستہ دکھانا، دوسری صورت منزل تک پہنچانا ہے۔

اس آیت میں پہلی صورت کا ذکر نہیں ہے چونکہ ہدایت بمعنی راستہ دکھانا کی نفی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ہو سکتی۔ رسول ؐ تو ہر ایک کو راہ راست دکھائیں گے۔ آگے کوئی اس ہدایت کو قبول کرے یا نہ کرے۔ نجات کا راستہ دکھانا رسول کا فرض منصبی ہے۔

آیت کا موضوع دوسری صورت کی ہدایت ہے۔ یعنی منزل تک پہنچانا۔ ایمان کی منزل پر فائز کر دینا یہ رسول کی ذمہ داری نہیں ہے۔

ہدایت کے سلسلے میں پہلی صورت کا تعلق رسول سے ہے۔ یہاں آیات کا رخ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۶۷)

اے رسول ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اس کو پہنچا دیجیے۔

اَنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ (۵ مائدہ: ۹۲)

ہمارے رسول کی ذمے داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچا دینا ہے۔

فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ وَ عَلَیۡنَا الۡحِسَابُ (۱۳ رعد: ۴۰)

آپ کے ذمے صرف پیغام پہنچانا اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔

دوسری صورت کا تعلق انسانوں سے ہے۔ قبول ہدایت کے ذمہ دار رسول نہیں ہوتے بلکہ مکلف انسان ذمہ دار ہوتے ہیں جن تک رسول کی تبلیغ اور دعوت پہنچ جاتی ہے۔

لَیۡسَ عَلَیۡکَ ہُدٰىہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۷۲)

آپ کے ذمے نہیں ہے کہ انہیں (جبراً) ہدایت دیں بلکہ خدا ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

اس سلسلے میں فرمایا:

اَفَاَنۡتَ تَہۡدِی الۡعُمۡیَ وَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یُبۡصِرُوۡنَ﴿﴾ (۱۰ یونس: ۴۳)

پھر کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں خواہ وہ کچھ بھی نہ دیکھتے ہوں۔

فَمَنِ اہۡتَدٰی فَلِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ (۳۹ زمر: ۴۱)

جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لیے حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿﴾ (۸۸ غاشیۃ: ۲۲)

آپ ان پر مسلط نہیں ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ گمراہ لوگ ہدایت کی طرف آئیں بلکہ آپ اس سلسلے میں حد سے زیادہ مشتاق رہتے تھے۔ فرمایا:

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ﴿﴾ (۲۶ شعراء: ۳)

شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا﴿﴾ (۱۸ کہف: ۶)

پس اگر یہ لوگ اس (قرآنی) مضمون پر ایمان نہ لائے توان کی وجہ سے شاید آپ اس رنج میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ: ہدایت و ایمان کی منزل تک پہنچانا آپ کا کام نہیں ہے۔ خواہ آپ کی کتنی ہی خواہش ہو کہ اسے پورا ہوتے نہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جان سے ہاتھ دھونے کی حد تک افسوس ہو جائے۔

اس آیت کا تعلق اس سلسلۂ آیات سے ہے۔ اس آیت کا لب و لہجہ ایک شخص کے عدم ایمان سے مربوط نہیں ہے۔

ابو طالب کا ایمان

ہم ان روایات کا جائزہ لیتے ہیں جو معاذ اللہ کفر ابوطالب کے بارے میں جعل ہوئی ہیں۔

i۔ پہلی روایت ابوہریرہ کی ہے:

جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے چچا! لا الٰہ الا اللہ کہیں، میں قیامت کے دن آپ کے لیے گواہی دوں تو ابو طالب نے کہا: اگر قریش والوں کے طعنے کا ڈر نہ ہوتا کہ موت کے ڈر سے یہ کلمہ کہنے پر آمادہ ہوا ہے تو میں اس کلمہ کا اقرار کرتا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی: اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ ۔۔۔۔

اس روایت میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: اول یہ کہ روایت سے کلمہ توحید پر عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ صرف عدم اظہار کی وجہ بتائی ہے۔ دوم یہ کہ کلمۂ توحید کا اقرار نہ کرنے اور موت سے ڈر میں کیا ربط ہے؟ اگر توحید کا عقیدہ دل میں تھا تو اظہار نہ کرنے کی صورت میں موت کا ڈر ہے، اگر توحید کا عقیدہ دل میں نہ تھا تو توحید کا اقرار کرنے نہ کرنے سے موت کا کوئی تعلق نہیں چونکہ مشرک موت کے بعد کی زندگی کا قائل نہیں ہے۔ کلمہ کہنے سے موت ٹل نہیں سکتی کہ یہ کہے: موت کے ڈر سے کلمہ کہہ کر موت کو ٹال دیا۔

اس روایت پر اہم سوال یہ ہے کہ ابوہریرہ نے بالاتفاق ہجرت کے ساتویں سال، فتح خیبر کے سال اسلام قبول کیا۔ وہ حضرت ابو طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی رحلت کے دس سال بعد مسلمانوں کے درمیان آئے تھے۔ وفات ابو طالب علیہ السلام کے وقت وہ ملک یمن کی دوس نامی بستی کے نہایت ناداروں میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوتے تھے اور ابوہریرہ نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس نے یہ واقعہ کو کس سے سنا۔ اس قسم کی روایت کو مرسلہ کہتے ہیں جو قابل اعتنا نہیں ہے۔ ابوہریرہ کے بارے میں علامہ شرف الدین عاملی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ابوھریرہ اور مصری محقق محمود ابوریّہ کی کتاب ابوہریرۃ شیخ المضیرۃ کا مطالعہ ضروری ہے۔

ii۔ دوسری روایت حضرت ابن عباس کی طرف منسوب ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے عدم ایمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ روایت بھی مرسلہ ہے چونکہ ابن عباس وفات ابو طالب کے وقت طفل شیرخوار تھے۔ چنانچہ ابن عباس کی ولادت وفات ابو طالب کے سال ہوئی۔ ( الاصابۃ ۲: ۳۳۱)۔

دوسری اہم بات یہ ہے ابن عباس کی طرف منسوب روایت کی سند میں ابو سہل السری ہے جو کذّاب، سارق الحدیث ہے۔ ملاحظہ ہو البدایۃ و النہایۃ ۵: ۳۷۶۔ میزان الاعتدال ۲: ۱۱۷ نمبر ۳۰۸۹۔ کتاب المجروحین ۱: ۳۵۵ نیز اس سند میں عبد القدوس ابو سعید الشامی الدمشقی ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: میں نے ابن المبارک کو عبد القدوس کے علاوہ کسی کو کذاب کہتے نہیں سنا۔ ابن حیان کہتے ہیں کہ یہ شخص ثقہ لوگوں کی طرف نسبت دے کر حدیث جعل کرتا تھا۔ ( میزان الاعتدال ۲: ۶۴۳ نمبر۵۱۵۶)

iii۔تیسری روایت۔ اسی موضوع پر انہی ابو سہیل السری کذاب اور عبدالقدوس کذاب نے ابن عمر کی طرف نسبت دی ہے۔ ( الدر المنشور ذیل آیت)

iv۔ چوتھی روایت جسے صحیح بخاری میں جگہ ملی سعید بن المسیب کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ موت کے وقت ابو طالب کے پاس ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ حاضر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے چچا! لا الٰہ الا اللہ کہیں۔ ابو طالب نے یہ کلمہ کہنے سے انکار کیا۔

ہم سند کا حال دیکھتے ہیں: بدر الدین عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ القصص باب انک لا تھدی جلد نہم صفحہ ۸۴ طبع قسطنطنیہ میں اور شاہ نور الحق دہلوی تیسیر القاری شرح صحیح بخاری جلد چہارم صفحہ۶۔ ۵ طبع مطبع علوی لکھنو میں لکھتے ہیں:

کرمانی نے کہا ہے کہ کہا جاتا ہے یہ اسناد صحیح بخاری کی شرط اور معیار کے مطابق نہیں ہیں چونکہ مسیب سے صرف اس کا بیٹا روایت کرتا ہے اور صاحب التلویح نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحابہ کی مرسل روایات میں سے ہے اور صاحب التواضیح نے اس کی تائید کی ہے۔ چونکہ مسیب بنابر قول مصعب فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کرنے والوں اور عسکری کے بقول زیر شجرہ بیعت کرنے والوں میں سے ہے۔ جو بھی ہو یہ شخص ابو طالب کی وفات کے وقت حاضر نہ تھا۔ چنانچہ ابو طالب اور خدیجہ رضی اللہ عنہا دونوں ایک سال میں وفات پا گئے۔ بعض نے یہ کہہ کر اس بات کو رد کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسیب کے بعد میں اسلام لانے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ابو طالب کی وفات کے وقت حاضر نہ تھے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن ابی امیہ حاضر تھا۔ وہ اس وقت کافر تھا۔ بعد میں اسلام قبول کیا۔ جواب یہ ہے: عبد اللہ بن ابی امیہ کا ابو طالب کی وفات کے وقت حاضر ہونا صحیح روایت میں ثابت ہے لیکن وفات ابوطالب کے وقت مسیب کا کفر کی حالت میں حاضر ہونا، نہ صحیح روایت سے ثابت ہے، نہ غیر صحیح روایت سے۔ جو بات احتمال کے بغیر کی گئی ہو وہ ایک احتمال سے مسترد نہیں ہو سکتی۔ فافہم۔

[حدیث ضحضاح]

بخاری اور مسلم نے سفیان ثوری سے، انہوں نے عبد الملک بن عمیر سے، انہوں نے عبداللہ بن حارث سے روایت کی ہے:

ہم سے عباس بن مطلب نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ابوطالب آپ کی حفاظت کرتے اور آپ کی خاطر وہ لوگوں سے غیض و غضب میں آتے تھے تو اس سے ان کو کوئی فائدہ ملا؟ جواب میں فرمایا:

ان ابا طالب فی ضحضاح من النار و لو لا انا لکان فی الدرک الاسفل ۔ ( صحیح بخاری ابواب المناقب صحیح مسلم کتاب الایمان )

ابوطالب آتش کے تالاب میں ہیں اگر میں نہ ہوتا تو (جہنم کے) نچلے طبقوں میں ہوتے۔

اس روایت کی سند میں واقع تینوں روایوں کا حال معلوم کرتے ہیں:

۱۔ سفیان ثوری کے متعلق مستند اصحاب رجال لکھتے ہیں:

انہ کان یدلس ویکتب عن الکذابین ۔ ( میزان الاعتدال )

وہ تدلیس کا مرتکب تھا اور کذاب راویوں سے روایت لکھتے تھے۔

ii۔ دوسرے راوی عبدالملک بن عمیر کوفی کے بارے میں ابو حاتم کہتے ہیں: لیس بحافظ تغیر حفظہ ۔ وہ حدیث کا حافظ نہیں ہے اس کا حافظہ خراب تھا۔ احمد کہتے ہیں: ضعیف یغلط ۔ وہ ضعیف ہے اور غلطی کر جاتا ہے۔

کوسج نے احمد سے نقل کیا ہے: انّہ ضعفہ جداً ۔ انہوں نے عبد الملک کو بہت ضعیف قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ۔

قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ حدیث ضحضاح قرآن کی متعدد آیات کی صراحت کے ساتھ متصادم ہے کہ جو لوگ شرک و کفر کی حالت میں مرتے ہیں ان کے لیے عذاب میں نہ تخفیف ہو گی، نہ شفاعت نصیب ہو گی۔ حدیث ضحضاح میں حضرت ابوطالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے لیے تخفیف و شفاعت کا ذکر ہے۔

ایمان ابوطالب کے شواہد

ابو طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہ جیسے محافظ رسول مدافع و مجاہد اسلام کے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے شواہد پیش کرنے کی نوبت آنا خود ایک المیہ اور تاریخ کے مظالم میں سے نہایت افسوسناک ظلم ہے۔

۱۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغۃ ۱۴: ۷۰ میں لکھا ہے:

روی باسانید کثیرۃ بعضھا عن العباس بن المطلب وبعضھا عن ابی بکر بن ابی قحافۃ ان ابا طالب ما مات حتی قال: لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ و الخبر مشہور ان ابا طالب عند الموت قال کلاماً خفیا فاصغی الیہ اخوہ العباس ۔

کثیر سندوں سے، بعض عباس بن عبد المطلب سے اور بعض ابو بکر بن ابی قحافہ سے روایت ہے کہ ابو طالب کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہے بغیر دنیا سے نہیں گئے اور یہ روایت مشہور ہے کہ ابوطالب نے اپنی موت کے وقت دھیمی آواز میں کچھ کلام کیا تو ان کے بھائی عباس نے کان لگا کر سنا تھا۔

الغدیر ۷: ۴۹۶ کے مطابق ابوالفداء نے اپنی تاریخ ۱: ۱۲۰ میں اور شعرانی نے کشف الغمۃ ۲:۱۴۴ میں لکھا ہے:

فلما تقارب من ابی طالب الموت جعل یحرک شفتیہ فاصغی الیہ العباس باذنہ و قال: و اللہ یا ابن اخی لقد قال الکلمۃ التی امرتہ ان یقولھا، فقال رسول اللہ: الحمد للہ الذی ھداک یا عمّ ۔

جب ابو طالب کے لیے موت قریب آئی تو ہونٹ ہلانے لگے تو عباس بن مطلب نے کان لگا کر سنا پھر کہا: اے میرے بھائی کے بیٹے قسم بخدا ابوطالب نے وہی کلمہ کہہ دیا جس کا آپ اسے حکم دیتے تھے۔ جس پر رسول اللہ نے فرمایا: حمد ہے اس اللہ کے لیے جس نے تجھے ہدایت دی ہے اے چچا!

۲۔ بستر رسولؐ پر

حضرت علی علیہ السلام صرف شب ہجرت بستر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہیں سوئے بلکہ حضرت ابوطالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے حکم سے علی علیہ السلام کو بستر رسول پر سلاتے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں کوئی گزند نہ پہنچ سکے۔ ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ۱۴: ۶۴۔ تفصیل ملاحظہ ہو الغدیر ۷: ۴۸۱

اگر ابو طالب کو رسول کی رسالت پر ایمان نہ ہوتا اور خاندانی غیرت و حمیت کی وجہ سے رسول کی حمایت کرتے تو اپنے فرزند علی علیہ السلام کو رسولؐ کی جگہ خطرے میں نہ ڈالتے چنانچہ شعب ابوطالب میں محاصرے کے دوران ہمیشہ بستر رسولؐ پر اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو سلا دیتے تھے۔

۳۔ شامی راہب (بحیرہ) کا واقعہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ہمراہ سفر شام کے راستے میں تھے۔ بحیرہ راہب نے آپؐ میں نبوت کی علامات دیکھیں تو ابو طالب نے اس موقع پر کہا:

ان ابن امنۃ النبی محمداً

عندی یفوق منازل الا ولاد

آمنہ کا بیٹا نبی محمد میرے نزدیک اولاد سے زیادہ عزیز ہے۔

الخصائص الکبریٰ ۱: ۴۴ میں بھی اس موقع کے حضرت ابو طالب علیہ السلام کے اشعار مذکور ہیں۔

۴۔ خشک سالی میں حضرت ابو طالب علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طلب باران کے لیے وسیلہ بنایا اور اس موضوع پر آپؐ کی مدح میں ایک شعر کہا جو بڑے شہنشاہوں کی شان میں کہا جاتا ہے:

وابیض یستقی الغام بوجھہ

ثمالی الیتامی عصمۃ للارامل

آپ کے نورانی چہرے سے باران طلب کیا جاتا ہے۔

آپ یتیموں کے سرپرست اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔ ( شرح صحیح بخاری قسطلانی ۲: ۲۲۷)

۵۔ ابو طالب رضوان اللہ علیہ نے حضرت علی علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائیں طرف نماز پڑھتے دیکھا تو اپنے بیٹے جعفر سے فرمایا: اپنے ابن عم کے بائیں طرف نماز پڑھو۔ ( اسد الغابۃ ۱: ۳۴۱)

قریش نے ایک عہد نامہ لکھا کہ جب تک بنی ہاشم محمد کو ہمارے حوالہ نہیں کرتے مقاطعہ جاری رکھا جائے گا۔ اس عہد نامے کو کعبہ پر آویزاں رکھا کچھ دن بعد رسول اللہؐ نے حضرت ابو طالب کو خبر دی مجھے وحی کے ذریعہ خبر ملی ہے کہ اس عہد نامہ کو دیمک نے چاٹ دیا ہے صرف اسم اللہ کو باقی رکھا ہے۔

حضرت ابو طالب نے قریش سے کہا: اس عہد نامہ کو بغرض ترمیم دیکھا جائے۔ قریش نے سمجھا ابو طالب محمد کو ہمارے حوالہ کرنے کے لیے کچھ ترمیم چاہتے ہوں گے۔ جب نیچے اتارا، کھولنے سے پہلے حضرت ابو طالب نے قریش کو بتا دیا کہ میرے بیٹے محمد نے خبر دی ہے کہ اس عہد نامے کو سوائے اسم اللہ کے دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ اگر خبر صحیح نہ نکلی تو میں محمد کو تمہارے حوالہ کر دوں گا۔ کھولا گیا تو دیکھا نام خدا کے علاوہ عہد نامے کا کوئی حصہ باقی نہیں ہے۔ اس پر قریش نے کہا: محمد جادوگر ہے۔

اس موقع پرحضرت ابو طالب کے اشعار کے حرف حرف سے ایمان کی روشنی پھوٹتی ہے۔ چشم بینا رکھنے والوں کے لیے طبقات ابن سعد، تاریخ یعقوبی، سیرت ابن ھشام، تاریخ ابن کثیر، الاستیعاب وغیرہ میں یہ روشنی پوری آب وتاب کے ساتھ نظر آئے گی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الغدیر ۷: ۴۸۹۔ صرف ایک شعر ملاحظہ ہو:

نبی الإلہ والکریم باصلہ

واخلاقہ وھو الرشید المؤید

وہ معبود کے نبی ہیں۔ وہ ذات واخلاق دونوں اعتبار سے مکرم ہیں اور وہ صاحب عقل و خرد ہیں جس کو (اللہ کی) تائید حاصل ہے۔

۶۔ قریش کے لیے ابو طالبؓ کی وصیت

موت جب قریب آ گئی تو قریش کے لیے ایک وصیت فرمائی۔ اس کا ایک حصہ یہ الفاظ ہیں:

واوصیکم بمحمد خیراً فانہ الامین فی قریش والصدیق فی العرب وھو الجامع لکل ما اوصیتکم بہ وقد جاء نا بامر قبلہ الجنان وانکرہ

میں وصیت کرتا ہوں کہ محمد کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو چونکہ وہ قریش میں امین عربوں میں راستگو، وہ ان تمام اوصاف حمیدہ کے مالک ہیں جو میں نے اس وصیت میں بیان کیے ہیں وہ ہمارے پاس ایک ایسا

اللسان مخافۃ الشنئان ۔۔۔ ( تاریخ خمیس، السیرۃ الحلبیۃ )

امر لے کر آئے ہیں جسے دلوں نے تو مان لیا مگر زبانوں نے دشمنی کے خوف سے انکار کیا۔

۷۔ بنی ہاشم کے لیے وصیت:

لن تزالو بخیر ما سمعتم من محمد وما اتبعتم امرہ فاتبعوہ واعینوہ ترشدوا ۔ ( الطبقات الکبریٰ ۱:۱۲۳)

جب تک تم محمد کا فرمان سنتے رہو گے اور ان کی اتباع کرتے رہو گے تمہاری خیر ہو گی۔ پس ان کی اتباع کرو اور اس کی مدد کرو، کامیاب رہو گے۔

۸۔ ادیان عالم میں بہتر دین

اس سلسلے میں ایک شعر ہے جس سے نہ صرف ان کا ایمان ثابت ہوتا ہے بلکہ اس ایمان کی قوت کا بھی علم ہو جاتا ہے۔ فرمایا:

ولقد علمت ان دین محمد

من خیر ادیان البریۃ دینا

مجھے علم ہو گیا ہے کہ محمد کا دین تمام انسانوں کے دین سے بہتر ہے۔

(دیوان ابو طالب)

۹۔ ابوطالب کے لیے استغفار

قرآن میں صریح حکم ہے کہ حالت شرک میں مرنے والوں کے لیے استغفار ممنوع ہے:

مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرۡبٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ﴿﴾ (۹ توبۃ: ۱۱۳)

نبی اور ایمان والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ یہ بات ان پر عیاں ہو چکی ہے کہ وہ جہنم والے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت ابو طالبؓ کے لیے بعد وفات استغفار کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے تاہم ملاحظہ ہو ابو داؤد، نسائی، بیہقی، دلائل النبوۃ وغیرہ جب کہ قرآن کا اٹل فیصلہ ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ ۔۔۔۔۔ (۴ نساء: ۴۸)

اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے۔۔۔۔

سوال ہوا: کیا آپ ابو طالب کے لیے خیر کی امید رکھتے ہیں ؟ فرمایا:

کل الخیر ارجو من ربی ۔

میں اپنے رب سے تمامتر خیر کی امید رکھتا ہوں۔

ملاحظہ ہو طبقات ابن سعد وغیرہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں حضرت ابوطالب رضوان اللہ علیہ کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لعلۃ تنفعہ شفاعتی یوم القیامۃ

امید ہے قیامت کے دن میری شفاعت انہیں فائدہ دے گی۔

ملاحظہ ہو بخاری صفحہ ۶۵۲ رقم ۳۸۸۵ بحوالہ خصائص علی علیہ السلام تحقیق قاری ظہور احمد صفحہ ۷۳۳۔

یہ حدیث بھی نہایت قابل توجہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

رسول اللہؐ نے مجھ سے ایک بات فرمائی جو پوری دنیا سے میرے لیے بہتر تھی۔ قال لی کلمۃ ما احب ان لی بھا الدینا ۔ بعض روایات میں اس جملہ کے بعد یہ الفاظ ہیں: یعنی فی ابی طالب حین مات ۔ وہ ابو طالب کے بارے میں فرمائی ان کی وفات کے وقت۔ ( خصائص نسائی صفحہ ۷۳۳۔ تحقیق قاری ظہور احمد )

۱۰۔ میں دین احمد پر ہوں

حضرت ابو طالب نے اپنے ایک شعری اقرار میں کہا:

یا شاھد الخلق علی فاشھد

انی علی دین النبی احمد

اے مخلوق پر شہادت والے تو گواہ

رہ میں احمد نبی کے دین پر ہوں۔ (دیوان ابو طالب)

۱۱۔ ابو طالب کے ایمان کا منکر جہنمی ہے

روایت ہے حضرت امام رضا علیہ السلام سے ایمان ابوطالبؓ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے سائل سے فرمایا:

انک ان لم تقر بایمان ابی طالب کان مصیرک النار ۔ ( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱۴: ۶۸)

اگر کوئی ایمان ابو طالب کا اقرار نہیں کرتا ہے تو وہ جہنمی ہے۔

۱۲۔ بغض ابو طالب کفر ہے

یہ فتویٰ کسی شیعہ کا نہیں بلکہ امام اہل سنت احمد بن الحسین الموصلی الحنفی نے اپنی کتاب شرح شہاب الاخبار تالیف علامہ محمد بن سلامۃ القضاعی متوفی ۴۵۴ھ میں لکھا ہے:

ان بغض ابی طالب کفر

علامہ علی اجہوری مالکی نے بھی اپنے فتاویٰ اور تلمسانی نے حاشیۃ علی الشفاء میں لکھا ہے:

ابو طالب کی حمایت و نصرت کا ذکر کرنا چاہیے اور ان کو برا کہنا اذیت رسولؐ کا باعث ہے اور رسولؐ کو اذیت دینا کفر ہے اور کافر کو قتل کیا جاتا ہے۔ (الغدیر ۷: ۵۱۳)

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ﴿﴾ ۔ (۵۰ ق:۳۷)


آیت 56