وَ لَقَدۡ وَصَّلۡنَا لَہُمُ الۡقَوۡلَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿ؕ۵۱﴾

۵۱۔ اور بتحقیق ہم نے ان کے لیے(ہدایت کی) باتیں مسلسل بیان کیں شاید یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔

51۔ ہم نے ان مشرکین کی ہدایت کے لیے رہنمائی کا ایک مربوط تسلسل قائم کیا ہے جو آیات، سورتوں وعدوں عبرتوں اور تاریخ کے اسباق پر مشتمل ہے۔

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِہٖ ہُمۡ بِہٖ یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۵۲﴾ ۞ؒ

۵۲۔ جنہیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

52۔ یہ آیت ان حبشی عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کی خبر سن کر بغرض تحقیق مکہ آئے اور جنہوں نے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی اور سوالات کیے نیز قرآن کی تلاوت سنی۔ چنانچہ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

وَ اِذَا یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِہٖۤ اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّنَاۤ اِنَّا کُنَّا مِنۡ قَبۡلِہٖ مُسۡلِمِیۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور جب ان پر (یہ قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں:ہم اس پر ایمان لے آئے، یقینا یہ ہمارے رب کی طرف سے برحق ہے، ہم تو اس سے پہلے بھی فرمانبردار تھے۔

53۔ یعنی یہ وہی رسول آخر الزمان صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جن پر ہم پہلے سے ایمان رکھتے تھے۔

اُولٰٓئِکَ یُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ انہیں ان کے صبر کے صلے میں دو بار اجر دیا جائے گا اور یہ لوگ برائی کو نیکی کے ذریعے دور کر دیتے ہیں اور ہم نے جو روزی انہیں دی ہے اس سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔

54۔ایک اجر اپنی کتاب پر ایمان لانے کا اور ایک اجر قرآن پر ایمان لانے کا۔

وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡہُ وَ قَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۫ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۫ لَا نَبۡتَغِی الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور جب وہ بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم پر سلام ہو ہم جاہلوں کو پسند نہیں کرتے۔

55۔ اہل ایمان کا یہی وطیرہ ہے کہ جاہلوں سے الجھنے اور بد کلامی کا جواب دینے کی بجائے مہذب انداز میں سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔

اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ (اے رسول) جسے آپ چاہتے ہیں اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔

56۔ غیر امامیہ مصادر میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابو طالب علیہ السلام کے عدم ایمان کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس کے راوی ابن عباس اور ابوہریرہ ہیں۔ یہ دونوں واقعہ کے راوی نہیں بن سکتے، کیونکہ ابن عباس ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام کی وفات کے وقت وہ شیر خوار تھے اور ابوہریرہ ہجرت کے سات سال بعد ایمان لائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان ابو طالب علیہ السلام کا مسئلہ بنی امیہ نے صرف حضرت علی علیہ السلام کی تنقیص کے لیے اٹھایا، ورنہ اس سے پہلے ایمان ابو طالب علیہ السلام ایک مسلمہ بات تھی۔ چنانچہ معاویہ نے ایک مرتبہ حضرت عقیل سے طنزاً کہا: آپ کا چچا ابولہب جہنم میں کس جگہ ہے؟ حضرت عقیل نے فی البدیہ کہا: اذا دخلت النار تجدہ علی یمینک مفروشا عمتک ام جمیل ۔ جب تم خود جہنم میں جاؤ گے تو اپنی دائیں جانب اپنی پھوپھی ام جمیل کے ساتھ اسے دیکھ لو گے۔ اگر ابوطالب کا مسلمان نہ ہونا اس وقت مسلم ہوتا تو معاویہ طنز و تحقیر میں باپ کو چھوڑ کر چچا کا ذکر نہ کرتا۔

وَ قَالُوۡۤا اِنۡ نَّتَّبِعِ الۡہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفۡ مِنۡ اَرۡضِنَا ؕ اَوَ لَمۡ نُمَکِّنۡ لَّہُمۡ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجۡبٰۤی اِلَیۡہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیۡءٍ رِّزۡقًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور کہتے ہیں: اگر ہم آپ کی معیت میں ہدایت اختیار کریں تو ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے، کیا ہم نے ایک پرامن حرم ان کے اختیار میں نہیں رکھا جس کی طرف ہر چیز کے ثمرات کھنچے چلے آتے ہیں؟ یہ رزق ہماری طرف سے عطا کے طور پر ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

57۔ ان کا ایمان نہ لانا اس لیے نہ تھا کہ انہیں یقین نہیں آتا تھا، بلکہ ان کے خیال میں ان کے دنیوی مفادات کو خطرہ لاحق تھا جس کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لاتے تھے۔ کیونکہ قریش کو علاقے میں اپنے مشرکانہ عقائد کی وجہ سے بڑا مقام حاصل تھا۔ پیری مریدی کے مفادات کو چھوڑ کر حق کی طرف آنا آسان کام نہیں ہے۔ ان کے جواب میں فرمایا: حالانکہ جن نعمتوں سے یہ مالا مال ہیں، وہ اسی اللہ کی طرف سے ہیں اور انہیں اسی اللہ کے گھر نے امن و امان کی زندگی دی ہے۔

وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍۭ بَطِرَتۡ مَعِیۡشَتَہَا ۚ فَتِلۡکَ مَسٰکِنُہُمۡ لَمۡ تُسۡکَنۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہِمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا ؕ وَ کُنَّا نَحۡنُ الۡوٰرِثِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے تباہ کر دیا جن کے باشندے اپنی معیشت پر نازاں تھے؟ ان کے بعد ان کے مکانات آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم اور ہم ہی تو وارث تھے۔

58۔ وہ بعض مفادات کی خاطر ایمان نہیں لا رہے تھے، جبکہ تاریخی حقائق کے مطابق ایمان نہ لانا ہی ان کے مفادات کے منافی تھا۔

5۔ تباہی ان دو عوامل کی وجہ سے آتی ہے: رسول کا انکار اور ظلم کا ارتکاب۔

مکہ کے مشرکین کی طرف اشارہ ہے کہ ان پر عذاب نازل ہونے کی تمام شرائط موجود ہیں۔ ان کے صدر مقام مکہ میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث ہوئے۔ اس رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے آیات الٰہی کی تلاوت بھی ہو رہی ہے اور اہل مکہ اس رسول پر ظلم کا پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ صدر مقام میں رسول اس لیے بھیجے جاتے ہیں کہ صدر مقام پر مترتب ہونے والے اثرات دیگر مقامات پر پھیل جاتے ہیں۔ اس لیے بڑے انبیاء انسانی تہذیب و تمدن کے بڑے بڑے مراکز میں مبعوث ہوئے ہیں۔

وَ مَا کَانَ رَبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی حَتّٰی یَبۡعَثَ فِیۡۤ اُمِّہَا رَسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ۚ وَ مَا کُنَّا مُہۡلِکِی الۡقُرٰۤی اِلَّا وَ اَہۡلُہَا ظٰلِمُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اور آپ کا رب ان بستیوں کو تباہ کرنے والا نہ تھا جب تک ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیات پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو تباہ کرنے والے نہ تھے مگر یہ کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوئے۔

وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتُہَا ۚ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ اور جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ اس دنیاوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور پائیدار ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

60۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ بڑے مفادات کے لیے چھوٹے مفادات کی اور لمبی آسائش کے لیے مختصر آسائش کی قربانی دی جائے اور عمر بھر کے آرام کے لیے وقتی درد و الم پر صبر کیا جائے۔ پھر یہ دین تم سے یہ مطالبہ بھی تو نہیں کرتا کہ تم ترک دنیا کرو، اس دین پر ایمان لا کر فقیر و محتاج بن جاؤ۔