یہودی کردار کی ایک جھلک


فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ وَ کُفۡرِہِمۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتۡلِہِمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ وَّ قَوۡلِہِمۡ قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۵۵﴾۪

۱۵۵۔ پھر ان کے اپنے میثاق کی خلاف ورزی، اللہ کی آیات کا انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں (اللہ نے انہیں سزا دی، ان کے دل غلاف میں محفوظ نہیں) بلکہ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر لگا دی ہے اسی وجہ سے یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

وَّ بِکُفۡرِہِمۡ وَ قَوۡلِہِمۡ عَلٰی مَرۡیَمَ بُہۡتَانًا عَظِیۡمًا﴿۱۵۶﴾ۙ

۱۵۶۔ نیز ان کے کفر کے سبب اور مریم پر عظیم بہتان باندھنے کے سبب۔

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا﴿۱۵۷﴾ۙ

۱۵۷۔ اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح بن مریم کو قتل کیا ہے، جبکہ فی الحقیقت انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا بلکہ( دوسرے کو) ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس میں شک میں مبتلا ہیں،ظن کی پیروی کے علاوہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں اور انہوں نے یقینا مسیح کو قتل نہیں کیا۔

بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

158۔موجودہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ ”نظریۂ کفارہ“ ہے کہ ابن اللہ نے یا خود اللہ نے سولی چڑھ کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے سب گنہگاروں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ یعنی بجائے اس کے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے کفارہ ادا کرتے خود اللہ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر کفارہ ادا کیا (البتہ اپنے بیٹے کی شکل میں آ کر جو نظریہ وحدت در تثلیث کے تحت خود اللہ ہے) یہودی اور مسیحی دونوں اتفاق کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام قتل ہو گئے۔ اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام قتل نہیں ہوئے: ٭خود مسیحیوں کے ایک قدیم فرقے ”سلیدیہ“ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ یسوع کی جگہ اشتباہاً ”شمعون کرینی“ کو سولی چڑھا دیا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جسم و روح سمیت آسمان پر اٹھا لیا گیا۔٭ حضرت مسیح علیہ السلام کو سزائے موت سلطنت روم کی عدالت سے ملی۔رومی اجنبی سپاہی مسیح علیہ السلام کو پہچانتے نہیں تھے، اس لیے ایک منافق ”یہودا“ کا سہارا لیا گیا۔ (انجیل 18:3) جب یہ پلٹن اور پیادے وہاں پہنچے تو یسوع نے ان سے پھر پوچھا: تم کسے ڈھونڈ رہے ہو؟ وہ بولے: یسوع ناصری کو۔ یسوع نے جواب دیا: میں تم سے کہ چکا ہوں کہ میں ہی یسوع ہوں۔ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ رومی سپاہیوں کو مسیح علیہ السلام کی شناخت نہیں تھی۔ ٭انجیل برنابا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف زندہ اٹھانے کا واقعہ پوری صراحت کے ساتھ درج ہے۔

وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا﴿۱۵۹﴾ۚ

۱۵۹۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ (مسیح) ان پر گواہ ہوں گے۔

159۔ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی موت سے پہلے یہود بھی ان کی نبوت پر ایمان لائیں گے اور نصاریٰ بھی ان کے نبی ہونے، ابن نہ ہونے پر ایمان لائیں گے۔ جو اہل کتاب نزول عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے مر جائیں گے، وہ مرنے کے بعد ایمان لائیں گے اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے لوگ بھی ان پر ایمان لائیں گے۔ صحیح بخاری باب نزول عیسیٰ میں آیا ہے: کیف انتم اذا نزل بن مریم فیکم و امامکم منکم۔ تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب ابن مریم نزول کریں گے تو تمہارا امام تم میں سے ہو گا۔ امام مہدی علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے۔

فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَہُمۡ وَ بِصَدِّہِمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَثِیۡرًا﴿۱۶۰﴾ۙ

۱۶۰۔یہود کے ظلم اور راہ خدا سے بہت روکنے کے سبب بہت سی پاک چیزیں جو (پہلے) ان پر حلال تھیں ہم نے ان پر حرام کر دیں۔

وَّ اَخۡذِہِمُ الرِّبٰوا وَ قَدۡ نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اَکۡلِہِمۡ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۱۶۱﴾

۱۶۱۔ اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

155 تا 161۔ ان آیات کا وسط کلام جملہ ہائے معترضہ کو نکالنے کے بعد اس طرح بنتا ہے: ”اس سبب سے کہ یہود نے عہد شکنی کی، آیات کا انکار کیا اور کہا کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں کہ ان پر غیر یہودی تعلیمات کا اثر نہیں ہوتا۔ حضرت مریم علیہ السلام پر عظیم بہتان باندھا اور کہا ہم نے مسیح کو قتل کیا، ظلم کا ارتکاب کیا، اکثر لوگوں کو راہ راست سے روکا، منع کے باوجود سود خوری کی، لوگوں کا مال ناحق کھایا۔ ان تمام باتوں کے سبب سے ہم نے ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کر دیں اور ان کے لیے ایک دردناک عذاب تیار کیا۔