عباس بن عبد المطلبؓ


اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا ۚ وَ اِنِ اسۡتَنۡصَرُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ فَعَلَیۡکُمُ النَّصۡرُ اِلَّا عَلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۷۲﴾

۷۲۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور انہوں نے اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے پناہ دی اور مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی تو ان کی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ ہجرت نہ کریں، البتہ اگر انہوں نے دینی معاملے میں تم لوگوں سے مدد مانگی تو ان کی مدد کرنا تم پر اس وقت فرض ہے جب یہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف نہ ہو جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال پر خوب نظر رکھتا ہے۔

72۔ مہاجرین و انصار کے درمیان حضور ﷺ نے مؤاخات کے ذریعہ رشتۂ ولایت قائم کیا، جس کے تحت مہاجرین و انصار کی صلح و جنگ ایک ہو گئی۔ وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بن گئے، مگر بعد میں وراثت کا حکم منسوخ ہو گیا۔ البتہ مہاجرین و انصار اور دار الکفر میں موجود مسلمانوں کے درمیان عام ولایت قائم بھی نہیں تھی۔ یعنی اگرچہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لے آیا، مگر اس کا ایمان اس کے کردار پر مؤثر نہیں رہا، اس نے ہجرت نہیں کی، اس کی وجہ سے وہ اس امت کے رشتہ ولایت کا ممبر نہ بن سکا۔ مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا ۔ ہجرت کے بعد ہی وہ اس امت کا حقیقی ممبر بن سکتا ہے۔ ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھا: آپ لوگ وارث رسول ﷺ کیسے ہیں۔ چچا کی موجودگی میں چچا کی اولاد وارث نہیں بن سکتی۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے وقت ابو طالب زندہ نہ تھے، عباس زندہ تھے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ان کو وارث نہیں بناتے جنہوں نے ہجرت نہیں کی، نہ ان کے لیے ولایت حاصل ہے۔(عباس نے ہجرت نہیں کی) پھر امام نے دلیل میں یہ آیت تلاوت فرمائی۔ نہایت قابل توجہ ہے کہ جب ایمان کے باوجود ہجرت نہ کرنے کی وجہ سے امت مسلمہ کے ساتھ رشتہ ولایت میں کوئی منسلک نہیں ہو سکتا تو فتح مکہ تک ایمان بھی نہ لانے والے کیسے منسلک ہو سکتے ہیں۔ صرف ایک حالت کی استثنا ہے کہ ان کافروں کے مقابلے میں ان کی مدد کی جائے گی جو مسلمانوں سے حالت جنگ میں ہیں۔ اگر کافر مسلمانوں سے حالت جنگ میں نہیں ہیں، ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی مدد نہیں کی جائے گی۔

اَجَعَلۡتُمۡ سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ کَمَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ لَا یَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۘ۱۹﴾

۱۹۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادکاری کو اس شخص کے برابر قرار دیا ہے جس نے اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور راہ خدا میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ۙ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں ۔

یُبَشِّرُہُمۡ رَبُّہُمۡ بِرَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَ رِضۡوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّہُمۡ فِیۡہَا نَعِیۡمٌ مُّقِیۡمٌ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ان جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے دائمی نعمتیں ہیں۔

19 تا 21۔ عباس بن عبد المطلب اور شیبہ آپس میں مفاخرہ کر رہے تھے۔ عباس اس بات پر فخر کر رہے تھے کہ مجھے حاجیوں کو آب زم زم پلانے کا شرف حاصل ہے۔ شیبہ کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ کعبہ کا معمار ہے۔ اسی اثنا میں حضرت علی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا۔آپ علیہ السلام نے فرمایا: اگرچہ میں آپ دونوں سے کم عمر ہوں، مگر جو شرف مجھے حاصل ہے، آپ دونوں کو حاصل نہیں ہے۔ دونوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ میں نے تلوار سے آپ دونوں کی ناک رگڑوا دی جس کی وجہ سے آپ دونوں اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آئے۔ اس پر یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے مؤقف کی تائید میں نازل ہوئی۔ اس مضمون روایت کو مختلف الفاظ کے ساتھ خود عباس، ابوذر، بریدہ، محمد بن کعب اور انس وغیرہ نے نقل کیا ہے۔

ایمان و خلوص سے خالی تعمیر مسجد اور حاجیوں کی خدمت پر ایمان و جہاد کو فضیلت دیتے ہوئے اس مومن و مجاہد کے لیے درج فضائل بھی بیان ہوئے: 1۔ وہ نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں: اَعۡظَمُ دَرَجَۃً 2۔ کامیابی انہیں کو حاصل ہے: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ۔ 3۔ جنت و رضوان رحمت کی نوید: یُبَشِّرُہُمۡ رَبُّہُمۡ بِرَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَ رِضۡوَانٍ 4۔ ابدی نعمت کی نوید: لَّہُمۡ فِیۡہَا نَعِیۡمٌ مُّقِیۡمٌ 5۔جنت میں دائمی زندگی کی نوید: خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا 6۔ اجر عظیم کی بشارت اس کے علاوہ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ۔