بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

وَ الۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے ان (فرشتوں)کی جو مسلسل بھیجے جاتے ہیں،

فَالۡعٰصِفٰتِ عَصۡفًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ پھر تیز رفتاری سے چلنے والے ہیں،

وَّ النّٰشِرٰتِ نَشۡرًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ پھر (صحیفوں کو) کھول دینے والے ہیں،

فَالۡفٰرِقٰتِ فَرۡقًا ۙ﴿۴﴾

۴۔ پھر (حق و باطل کو) جدا کرنے والے ہیں،

فَالۡمُلۡقِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ﴿۵﴾

۵۔ پھر یاد (خدا دلوں میں) ڈالنے والے ہیں،

عُذۡرًا اَوۡ نُذۡرًا ۙ﴿۶﴾

۶۔ حجت تمام کرنے کے لیے ہو یا تنبیہ کے لیے:

اِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَوَاقِعٌ ؕ﴿۷﴾

۷۔ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقینا واقع ہونے والی ہے۔

1 تا 7۔ ان آیات میں جو اوصاف بیان ہوئے ہیں، وہ بعض کے نزدیک ہوا اور بعض کے نزدیک فرشتوں کے اوصاف ہیںـ۔ ہمارے نزدیک یہ اوصاف فرشتوں کے ہیں۔ یعنی قسم ہے ان فرشتوں کی جو امر الٰہی لے کر پے در پے نازل ہوتے ہیں اور بڑی تیزی و سرعت کے ساتھ تعمیل کرتے ہیں اور وحی الٰہی پر مشتمل صحیفوں کو پھیلاتے ہیں، جن سے حق و باطل میں فرق اور امتیاز ہو جاتا ہے اور جو رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کو نازل کرتے ہیں، جس سے عذر اور حجت پوری اور تنبیہ بھی ہو جاتی ہے۔ (ان سب فرشتوں کی قسم) جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور واقع ہو کر رہے گی۔ اس تفسیر کے مطابق قسم اور مضمون میں ربط سمجھ میں آ جاتا ہے۔ گویا فرمانا چاہتا ہے: میرے اس مذکورہ نظام کی قسم قیامت ضرور واقع ہو گی۔ یعنی اس نظام میں روز جزا کا ہونا لازمی ہے، ورنہ یہ پورا نظام عبث ہو جائے گا۔

فَاِذَا النُّجُوۡمُ طُمِسَتۡ ۙ﴿۸﴾

۸۔ پس جب ستارے بے نور کر دیے جائیں گے،

وَ اِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتۡ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور جب آسمان میں شگاف ڈال دیا جائے گا،

وَ اِذَا الۡجِبَالُ نُسِفَتۡ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور جب پہاڑ اڑا دیے جائیں گے،