وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتۡ ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ اور جب رسولوں کو مقررہ وقت پر لایا جائے گا۔

11۔ رسولوں کو اپنی اپنی امت پر گواہی دینے کے لیے مقررہ وقت، یعنی قیامت کے دن لایا جائے گا۔

لِاَیِّ یَوۡمٍ اُجِّلَتۡ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ کس دن کے لیے ملتوی رکھا ہوا ہے؟

12۔ اس دن کی ہولناکی اور عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ اسی سے یہ کہنا: و ما ادراک ایک محاورہ ہے کسی امر کی اہمیت بتانے کے لیے۔

لِیَوۡمِ الۡفَصۡلِ ﴿ۚ۱۳﴾

۱۳۔ فیصلے کے دن کے لیے۔

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا یَوۡمُ الۡفَصۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ اور آپ کو کس چیز نے بتایا کہ فیصلے کا دن کیا ہے؟

وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اس دن تکذیب کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔

اَلَمۡ نُہۡلِکِ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہیں کیا تھا؟

16۔ اولین و آخرین، سب کے لیے اللہ کا قانون مکافات ایک ہے۔

ثُمَّ نُتۡبِعُہُمُ الۡاٰخِرِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ پھر بعد والوں کو بھی ہم ان کے پیچھے لائیں گے۔

کَذٰلِکَ نَفۡعَلُ بِالۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔

وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اس دن جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔

اَلَمۡ نَخۡلُقۡکُّمۡ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے خلق نہیں کیا؟

20۔ حقیر پانی کی تعبیر یہ بتانے کے لیے ہے کہ تم اپنے ماضی پر نظر کرو اور اپنی حیثیت اور قیمت کا اندازہ کرو۔ جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے: مَا لاِبْنِ آدَمَ وَ الْفَخْرِ اَوَّلُہُ نُطْفَۃٌ وَ آخِرُہُ جِیفَۃٌ ۔ (نہج البلاغۃ نصیحت 454 ص 555) اولاد آدم کو فخر سے کیا کام، جس کی ابتدا نطفہ اور انتہا مردار ہے۔