آیات 8 - 11
 

فَاِذَا النُّجُوۡمُ طُمِسَتۡ ۙ﴿۸﴾

۸۔ پس جب ستارے بے نور کر دیے جائیں گے،

وَ اِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتۡ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور جب آسمان میں شگاف ڈال دیا جائے گا،

وَ اِذَا الۡجِبَالُ نُسِفَتۡ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور جب پہاڑ اڑا دیے جائیں گے،

وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتۡ ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ اور جب رسولوں کو مقررہ وقت پر لایا جائے گا۔

تشریح کلمات

طُمِسَتۡ:

( ط م س ) طمس کے معنی کسی چیز کا نام و نشان مٹا دینے کے ہیں: وَ لَوۡ نَشَآءُ لَطَمَسۡنَا عَلٰۤی اَعۡیُنِہِمۡ۔۔۔۔ (۳۶ یٰسٓ: ۶۶)

نُسِفَتۡ:

( ن س ف ) نسفت الریحُ الشیء کے معنی ہوا کے کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاِذَا النُّجُوۡمُ طُمِسَتۡ: ستاروں کا نور اگر سورج سے ہے تو سورج کا نور ختم ہونے پر ان ستاروں کا نور بھی ختم ہو جائے گا:

اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ﴿۱﴾ (۸۱ تکویر:۱)

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔

اور اگر یہ ستارے خود سے روشن ہیں تو قیامت کے دن یہ ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے کی وجہ سے بکھر کر اپنی روشنی کھو دیں گے۔

۲۔ وَ اِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتۡ: آسمان سے مراد اجرام سماوی (جن کا ذکر النُّجُوۡمُ طُمِسَتۡ میں آیا ہے) کے علاوہ ہے تو ممکن ہے آسمان سے مراد فضائی عناصر ہوں جن میں رخنہ پڑ جائے گا۔ جیسے اوزون میں رخنہ پڑ گیا ہے۔ چنانچہ آسمان کے شگافتہ ہونے کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے جیسے:

اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ﴿۱﴾ (۸۴ انشقاق: ۱)

جب آسمان پھٹ جائے گا۔

۳۔ وَ اِذَا الۡجِبَالُ نُسِفَتۡ: پہاڑوں کے پراگندہ ہونے کا بھی ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے بلکہ پوری کرۂ ارض کی تبدیلی کا ذکر ہے:

یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ۔۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۴۸)

یہ (انتقام) اس دن ہوگا جب یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی۔

ان آیات میں اس بات کی صراحت ہے کہ موجودہ کائنات اور اس کا زوال پذیر نظام ختم ہو جائے گا اور ایک ایسی کائنات تخلیق ہو گی یا ایسی کائنات موجود رہے گی جو زوال پذیر نہیں ہے۔

۴۔ وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتۡ: اُقِّتَتۡ اصل میں وُقِّتت ہے۔ واو ہمزہ میں بدل گئی ہے۔ کہتے ہیں جب بھی واو مضموم ہو اور اس کا ضمہ لازمی ہو، وہ واو ہمزہ میں بدل جاتی ہے۔ رسولوں کو اپنی امت پر گواہی دینے کے لیے مقررہ وقت یعنی قیامت کے دن لایا جائے گا:

یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوۡلُ مَا ذَاۤ اُجِبۡتُمۡ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۱۰۹)

(اس دن کا خوف کرو) جس دن اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا: (امتوں کی طرف سے) تمہیں کیا جواب ملا؟

نیز فرمایا:

وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا۔۔۔۔ (۱۶ نحل: ۸۴)

اور اس روز ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے۔


آیات 8 - 11