وَ لَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ ثُمَّ صَوَّرۡنٰکُمۡ ثُمَّ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ ٭ۖ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ بتحقیق ہم نے تمہیں خلق کیا پھر تمہیں شکل و صورت دی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا صرف ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا۔

قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسۡجُدَ اِذۡ اَمَرۡتُکَ ؕ قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ﴿۱۲﴾

۱۲۔ فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے باز رکھا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ بولا: میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔

قَالَ فَاہۡبِطۡ مِنۡہَا فَمَا یَکُوۡنُ لَکَ اَنۡ تَتَکَبَّرَ فِیۡہَا فَاخۡرُجۡ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ فرمایا: یہاں سے اتر جا! تجھے حق نہیں کہ یہاں تکبر کرے، پس نکل جا! تیرا شمار ذلیلوں میں ہے۔

قَالَ اَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔بولا:مجھے روز قیامت تک مہلت دے۔

قَالَ اِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ فرمایا:بے شک تجھے مہلت دی گئی۔

قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔بولا: جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی تیرے سیدھے راستے پر ان کی گھات میں ضرور بیٹھا رہوں گا ۔

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَکۡثَرَہُمۡ شٰکِرِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ پھر ان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں (ہر طرف) سے انہیں ضرور گھیر لوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔

قَالَ اخۡرُجۡ مِنۡہَا مَذۡءُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ؕ لَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ فرمایا: تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر نکل جا، ان میں سے جو بھی تیری اتباع کرے گا تو میں تم سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا ۔

12 تا 18۔ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ : ابلیس نے صریح نص کے مقابلے میں ذاتی رائے، امر الٰہی کے خلاف اپنا اجتہاد، حکمت الٰہیہ کے مقابلے میں اپنا فلسفہ اور خالق کے دستور کے مقابلے میں اپنی منطق پیش کی اور اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ کا نعرہ بلند کر کے ایک باطل قیاس کو رواج دیا اور غیر منطقی استدلال کی روش کی ابتدا کی۔

ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں، دیلمی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے، انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے اور انہوں نے اپنے جد بزرگوار سے روایت کی کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اول من قاس برأیہ ابلیس قال اللّٰہ تعالیٰ لہ اسجد لآدم فقال: انا خیرمنہ قال جعفر: فمن قاس امر الدین برأیہ قرنہ اللّٰہ تعالی یوم القیمۃ ابلیس (المنار8:331، تفسیر مراغی 8:112) ”دینی معاملہ میں سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کو اپنایا۔ اللہ نے اسے حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کر۔ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو دینی امر میں قیاس کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ابلیس کے ساتھ کر دے گا۔“ اسی عبارت کے قریب ایک روایت حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی 7 :171، تفسیر ابو حیان 5:18۔

سود کے بارے میں منکرین کا قیاس قرآن نے نقل کیا ہے جو کہتے تھے اور کہتے ہیں: اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا (بقرۃ :275) ”خرید و فروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔“ ذبیحہ کے بارے میں مشرکین مکہ قیاس کرتے تھے کہ کیا وجہ ہے کہ جسے تم لوگوں نے مارا ہے (ذبیحہ) وہ تو حلال ہو اور جسے اللہ نے مارا ہے (مردار) وہ حرام ہو؟

وَ یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ فَکُلَا مِنۡ حَیۡثُ شِئۡتُمَا وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور اے آدم !آپ اور آپ کی زوجہ اس جنت میں سکونت اختیار کریں اور دونوں جہاں سے چاہیں کھائیں، مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ آپ دونوں ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

فَوَسۡوَسَ لَہُمَا الشَّیۡطٰنُ لِیُبۡدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنۡہُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِہِمَا وَ قَالَ مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنۡ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِیۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ پھر شیطان نے انہیں بہکایا تاکہ اس طرح ان دونوں کے شرم کے مقامات جو ان سے چھپائے رکھے گئے تھے ان کے لیے نمایاں ہو جائیں اور کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے تمہیں صرف اس لیے منع کیا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جاؤ یا زندہ جاوید بن جاؤ۔