آیات 19 - 23
 

وَ یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ فَکُلَا مِنۡ حَیۡثُ شِئۡتُمَا وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور اے آدم !آپ اور آپ کی زوجہ اس جنت میں سکونت اختیار کریں اور دونوں جہاں سے چاہیں کھائیں، مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ آپ دونوں ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

فَوَسۡوَسَ لَہُمَا الشَّیۡطٰنُ لِیُبۡدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنۡہُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِہِمَا وَ قَالَ مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنۡ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِیۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ پھر شیطان نے انہیں بہکایا تاکہ اس طرح ان دونوں کے شرم کے مقامات جو ان سے چھپائے رکھے گئے تھے ان کے لیے نمایاں ہو جائیں اور کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے تمہیں صرف اس لیے منع کیا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جاؤ یا زندہ جاوید بن جاؤ۔

وَ قَاسَمَہُمَاۤ اِنِّیۡ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ اور اس نے قسم کھا کر دونوں سے کہا: میں یقینا تمہارا خیر خواہ ہوں۔

فَدَلّٰىہُمَا بِغُرُوۡرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ؕ وَ نَادٰىہُمَا رَبُّہُمَاۤ اَلَمۡ اَنۡہَکُمَا عَنۡ تِلۡکُمَا الشَّجَرَۃِ وَ اَقُلۡ لَّکُمَاۤ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۲۲﴾

۲۲۔پھر فریب سے انہیں (اس طرف) مائل کر دیا، جب انہوں نے درخت کو چکھ لیا تو ان کے شرم کے مقامات ان کے لیے نمایاں ہو گئے اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر جوڑنے لگے اور ان کے رب نے انہیں پکارا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تمہیں بتایا نہ تھا کہ شیطان یقینا تمہارا کھلا دشمن ہے؟

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ دونوں نے کہا: ہمارے رب! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

تشریح کلمات

سوآت:

( س و ء ) وہ بات جو بری لگے۔ سوء ۃ الانسان سے مراد اس کی شرم گاہ ہے۔

دلّی:

( د ل و ) پستی کی طرف تدریجاً لے جانا۔ الدلو

غرور:

( غ ر ر ) فریب، دھوکہ دینا۔

یخصف:

( خ ص ف ) گوتھنا جوڑنا۔

تفسیر آیات

۱۔ انسان کو بہکانے کے لیے ابلیس کا سب سے پہلا ہدف انسان کے شرم کے مقامات تھے اور اسی مقصد کے لیے اس نے آدم کو وسوسہ میں ڈالا۔ چنانچہ فرمایا: پھر شیطان نے ان دونوں کو بہکایا تاکہ ان دونوں کے شرم کے مقامات جو ان سے چھپائے گئے تھے، نمایاں ہو جائیں: لِیُبۡدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنۡہُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِہِمَا ۔۔

۲۔ آدم کو عریاں کر کے ابلیس انتقام لینا چاہتا تھا یا اس سے جنسی خواہشات کی طرف اشارہ ہے کہ پھل کھانے سے تناسلی خواہشات شروع ہو گئیں اور انسان کو گمراہ کرنے کے اس ذریعے کو ابلیس استعمال کرنا چاہتا تھا؟ یا پھل کھانے سے بقول بائبل آدم و حواکی آنکھیں کھل گئیں؟ یا ان سے جنت کے لباس اتر گئے یا یہ کوئی تکوینی امر تھا اور پھل کھانے اور لباس اترنے میں کوئی طبعی ربط تھا؟ یہ سب تحقیق طلب باتیں ہیں، جن کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس قرآن و روایات کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اور ان سے یہ وضاحتیں نہیں ملتیں ۔ البتہ شرم کے مقامات اور پردہ ایک مادی چیز ضرور تھی، جسے ڈھانپنے کے لیے مادی چیز (پتوں) کی ضرورت پیش آئی: یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ۔۔۔۔

البتہ درخت کے پھل کھانے اور شرم کے مقامات کھلنے میں کوئی ربط ضرور تھا: فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا ۔۔۔۔

بائبل میں آیا ہے :

تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں معلوم ہوا کہ ہم ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ (پیدائش ۳: ۷)

۳۔ بہرحال اس آیت سے یہ تو ثابت ہو جاتا ہے کہ شرم و حجاب ایک فطری اور طبعی امر ہے۔ یہ تہذیب و تمدن، تربیت کی وجہ سے نہیں ہے۔ آج بھی ابلیس کی اولاد، آدم کی اولاد کو بے لباس کرنے پر مصر ہے:

یَنۡزِعُ عَنۡہُمَا لِبَاسَہُمَا ۔۔۔ (۷ اعراف: ۲۷)

اور انہیں بے لباس کیا۔۔۔۔

اور آج کا ابلیس جنسی خواہشات کی راہ سے بے حیائی اور فواحش کو عام کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ: ابلیس نے آدمؑ سے کہا اس درخت کے کھانے سے منع اس لیے کیا گیا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جاؤ۔ یعنی آدم کو فرشتہ بننے کا لالچ دیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آدمؑ مسجود ملائکہ ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنے سے کمتر بننے کا لالچ دیا جائے؟

جواب: ابلیس نے آدمؑ کی سرشت میں موجود حب بقا کو ذریعہ بنایا۔ آدمؑ کو علم تھا کہ فرشتے تاقیامت زندہ رہیں گے۔ اس لیے ابلیس نے یہ لالچ دیا ہوکہ آپؑ جہاں مسجود ملائکہ ہیں، وہاں درخت کھانے کے بعد فرشتوں کا یہ وصف بھی حاصل کر سکیں گے۔ چنانچہ سورہ طہ: ۱۲۰ میں فرمایا:

ہَلۡ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الۡخُلۡدِ وَ مُلۡکٍ لَّا یَبۡلٰی

ابلیس نے کہا: اے آدم! کیا میں تمہیں ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں بتاؤں؟

یعنی حیات جاویداں اور لازوال سلطنت کی خواہش انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ شیطان نے اسی خواہش کو متحرک کر کے آدمؑ کو شجرہ ممنوعہ سے کھانے پر اکسایا۔ کیونکہ انسان کو جب اپنی خواہشات کی تکمیل کا آسان راستہ دکھایا جاتا ہے تو وہ بہت جلد اس پر چل پڑتا ہے۔ قصہ آدمؑ کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۲۹۔۳۰۔

اہم نکات

۱۔ روٹی، مکان اور بیوی، انسان کے ابتدائی لوازم حیات ہیں: وَ یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ فَکُلَا مِنۡ حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۔۔۔۔

۲۔ بقاء کی خواہش انسان کی سرشت میں ودیعت ہے۔ ابلیس نے اس خواہش کو ذریعہ بنایا: اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِیۡنَ ۔


آیات 19 - 23