آیات 11 - 18
 

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ ثُمَّ صَوَّرۡنٰکُمۡ ثُمَّ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ ٭ۖ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ بتحقیق ہم نے تمہیں خلق کیا پھر تمہیں شکل و صورت دی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا صرف ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا۔

قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسۡجُدَ اِذۡ اَمَرۡتُکَ ؕ قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ﴿۱۲﴾

۱۲۔ فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے باز رکھا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ بولا: میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔

قَالَ فَاہۡبِطۡ مِنۡہَا فَمَا یَکُوۡنُ لَکَ اَنۡ تَتَکَبَّرَ فِیۡہَا فَاخۡرُجۡ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ فرمایا: یہاں سے اتر جا! تجھے حق نہیں کہ یہاں تکبر کرے، پس نکل جا! تیرا شمار ذلیلوں میں ہے۔

قَالَ اَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔بولا:مجھے روز قیامت تک مہلت دے۔

قَالَ اِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ فرمایا:بے شک تجھے مہلت دی گئی۔

قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔بولا: جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی تیرے سیدھے راستے پر ان کی گھات میں ضرور بیٹھا رہوں گا ۔

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَکۡثَرَہُمۡ شٰکِرِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ پھر ان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں (ہر طرف) سے انہیں ضرور گھیر لوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔

قَالَ اخۡرُجۡ مِنۡہَا مَذۡءُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ؕ لَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ فرمایا: تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر نکل جا، ان میں سے جو بھی تیری اتباع کرے گا تو میں تم سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا ۔

تفسیر آیات

آدمؑ کو زمین میں بسانے کا واقعہ کس طرح پیش آیا؟ اس کے پیچھے کون سے محرکات کار فرما تھے؟ آدم بحیثیت انسان کون سا مقام اور منصب لے کر اس سر زمین پر جاگزین ہوئے؟ ان کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟ اس کرۂ ارض پر نسل آدم کو کن ارتقائی مراحل سے گزارا گیا؟ ان آیات میں انسانی تاریخ کے ان اہم واقعات کا ذکر ملے گا۔

۱۔ وَ لَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ: اس آیت کی ترتیب کلام پر نظر ڈالیں۔ پورے بنی نوع انسان سے خطاب ہے کہ ہم نے تم کو خلق کیا۔ پھر تم کوشکل و صورت دی۔ ترتیب کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق اور تصویر، دو مختلف ادوار میں عمل میں آئیں۔ پہلے تخلیق کا عمل، پھر دوسرے دور میں تصویر کا عمل۔ اس طرح تخلیق و تصویر میں تدریجی عمل کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ پھر آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آدم کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ ذات آدم کے لیے نہ تھا، بلکہ نوع انسانی کا نمایندہ ہونے کی حیثیت سے تھا۔ آدم تو اس سجدہ کے لیے کعبہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ لہٰذا نوع انسان مسجود ملائکہ ہے۔ آدم اس نوع کے نمائندے کی حیثیت سے اس سجدہ کے لیے کعبہ قرار پائے۔ (المیزان ذیل آیہ )

۲۔ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا جب کہ ملائکہ کو حکم ہوا تھا کہ سجدہ کریں۔ ابلیس کا تعلق ملائکہ سے نہ تھا بلکہ وہ تو جن تھا ۔ چنانچہ فرمایا:

فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ ۔۔۔ (۱۸ کہف: ۵۰)

سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنات میں سے تھا پس وہ اپنے رب کی اطاعت سے خارج ہو گیا۔

جواب یہ دیتے ہیں کہ ابلیس اگرچہ جنات میں سے تھا لیکن وہ کثرت عبادت کے ذریعے مقام قدس پر فائز ہوا تھا۔ چنانچہ وَ نُقَدِّسُ لَکَ (۲ بقرۃ ۳۰)سے ظاہر ہے اور آدمؑ کو سجدہ کرنے کاحکم مقام قدس پر فائز ہونے والوں کے لیے تھا۔ اس بات کو خود ابلیس بھی درک کر چکا تھا۔ اسی لیے اس نے سجدہ نہ کرنے پر نسلی امتیاز سے استدلال کیا ۔

۳۔ مَا مَنَعَکَ: اللہ کی طرف سے ابلیس سے سوال یہ ہوا کہ تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے باز رکھا جب کہ میں نے حکم دیا تھا تو ابلیس نے جواب دیا: میں آدم سے بہتر ہوں، مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔

اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ: ابلیس نے نص صریح کے مقابلے میں ذاتی رائے، امر الٰہی کے خلاف اپنا اجتہاد، حکمت الٰہی کے مقابلے میں اپنا فلسفہ، الٰہی معیار کے مقابلے میں اپنا معیار، خالق کے دستور کے مقابلے میں اپنی منطق پیش کی اور عناصر تخلیق میں تقابل کیا۔ عنصر خاکی پر آگ کے عنصر کو فضیلت دی۔ ان عناصر کے خالق کے سامنے یہ گستاخی کی اور کہا: میرے نزدیک خاکی عنصر سے آتشی عنصر بہتر ہے۔ لہٰذا اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ (۷ اعراف : ۱۲) کا نعرہ بلند کیا۔ یوں اس نے ایک باطل قیاس کے رواج اور ایک غیر منطقی استدلال کی روش کی بنیاد رکھی۔ اس طرح وہ اس سے غافل رہا کہ اگرعناصر ہی کو معیار بنایا جائے تو نوری مخلوق، فرشتوں کو قبلہ گاہ سجدہ بنایا جانا چاہیے، نہ خاکی مخلوق آدمؑ کو۔ پھر یہ بھی قابل توجہ ہے کہ عناصر میں فضیلت کا معیار کیا ہے اور نار سے خاک افضل کیوں نہیں ہو سکتی؟

سب سے پہلا قیاس: ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں، دیلمی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے، انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے، انہوں نے اپنے جد بزرگوار سے روایت کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

اول من قاس امر الدین برأیہ ابلیس قال اللہ تعالٰی لہ اسجد لاٰدم فقال انا خیر منہ ۔

دینی امور میں سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کو اپنایا۔ اللہ نے اس کو حکم دیا آدم کو سجدہ کرو، اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں۔

قال جعفر: فمن قاس امر الدین برأیہ قرنہ اللہ تعالٰی یوم القیمۃ بابلیس ۔ (المنار ۸: ۳۳۱۔ تفسیر مراغی۷: ۱۱۲)

جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: لہٰذا جو دینی امور میں قیاس کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بروز قیامت ابلیس کے ساتھ کر دیتا ہے۔

ابن سیرین سے صحیح السند روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

اول من قاس ابلیس وما عبدت الشمس و القمر الا بالمقاییس ۔

سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا اور سورج چاند کی پوجا قیاس ہی کی بنیاد پر کی گئی۔

اور واحدی نے البسیط میں ابن عباس سے روایت کی ہے:

کانت الطاعۃ اولی بابلیس من القیاس فعصی ربہ و قاس و اول من قاس ابلیس فکفر بقیاسہ فمن قاس الدین بشیٔ من رأیہ قرنہ اللہ مع ابلیس ۔ (تفسیر ابن جریر۔ تفسیر قرطبی ۷: ۱۷۱۔ تفسیر ابو حیان۵:۱۸۔ تفسیر کشف الاسرار۳: ؟۳)

ابلیس کے لیے اللہ کی اطاعت کرنا قیاس کرنے سے بہتر تھا لیکن اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور قیاس کیا۔ اس طرح سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کو اپنایا۔ لہٰذا جو بھی دین کے بارے میں قیاس کرے، اللہ تعالیٰ اسے ابلیس کے ساتھ کر دے گا۔

مشہور فقیہ شعبی کہتے ہیں: خبردار! قیاس پر عمل نہ کرو۔ اگر تم نے قیاس پر عمل کیا تو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دے گا۔

مسروق وراق قیاس کے بارے میں کہتے ہیں:

قاموا من السوق اذ قلّت مکاسبہم۔ فاستعملوا الرأی عند الفقر و البؤس ۔ ( تفسیر محاسن التاویل ۷: ۲۰)

جب ان کی کمائی میں کمی آئی تو اپنی غربت کو دور کرنے کے لیے بازار سے اٹھ کر قیاس کو ذریعہ بنانے کے لیے آ گئے۔

اشرف تھانوی لکھتے ہیں:

ایسا شخص شیطان کا وارث ہے جو اپنی رائے اور روئیت کو، چاہے وہ کشف پر مبنی ہو یا وجدان و ذوق پر، شریعت کے مقابلے میں ترجیح دیتا ہے۔ (بیان القرآن۱: ۴۸۴)

قیاس یا ذاتی رائے: اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مسئلہ ایسا ہے کہ جس کا حکم قرآن و سنت اور کسی شرعی دلیل میں نہیں ملتا تو اس حکم کو ذاتی رائے اور مفروضہ کی بنیاد پر کسی اور حکم پر قیاس کر کے ثابت کیا جائے۔ اس حکم کے اندر موجود حکمت اور راز کو اپنی رائے سے فرض کر لیا جاتا ہے اور اس خود ساختہ مفروضے کی بنیاد پر حکم خدا ثابت کیا جاتا ہے۔ مثلاً کفن تیار کرنے کے بعد کسی وجہ سے میت ناپید ہو جاتی ہے تو کفن وارث کو واپس مل جاتاہے۔ فقہ حنفی نے اس حکم پر مسجد کو قیاس کر لیا کہ اگر آبادی نہ ہونے کی وجہ سے مسجد بے مصرف ہو گئی تو یہ مسجد واقف کو واپس مل جائے گی اور مفروضہ یہ ہے کہ کفن بے مصرف ہونے کی وجہ سے وارث کو واپس ملا ہے تو مسجد بے مصرف ہونے کی وجہ سے واقف کو واپس جاتی ہے۔ یہاں مکتب قیاس نے بے مصرف ہونے کو حکم کا دار و مدار قرار دیا ہے جو ایک خیال، ظن اور مفروضہ ہے۔ جب کہ کفن کے کپڑے اورمسجد کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے۔ مسجد وقف ہے اور کفن وارثوں پر میت موجود ہونے کی صورت میں واجب ہے۔ میت نہ ہونے کی صورت میں واجب ہی نہیں۔ مسجد اللہ کی عبادت سے متعلق ہے فی الوقت مصرف نہ ہونا ایک وقتی بات ہے، جب کہ کفن ایک میت سے متعلق ہے۔

لوگ اس قسم کا قیاس سود کے بارے میں کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۔۔۔۔ (۲ بقرہ : ۲۷۵) بیع یعنی خرید و فروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے اور ذبیحہ کے بارے میں مکہ کے مشرکین اسی طرح قیاس کرتے تھے: کیا وجہ ہے کہ جس کو تم لوگوں نے ذبح کیا ہے وہ تو حلال ہے اور جس کو اللہ نے مارا ہے وہ حلال نہیں ہے۔

اس وجہ سے ائمہ اہل البیت علیہم السلام بالاجماع قیاس کو مسترد کرتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :

اِنَّ السُّنَّۃَ اِذَا قِیسَتْ مُحِقَ الدِّینُ ۔ (اصول الکافی ۱: ۵۷)

سنت میں اگر قیاس کیا جائے تو دین مٹ جاتا ہے۔

ہم نے اس سے پہلے بھی علامہ عبد البر سے عوف بن مالک اشجعی کی یہ حدیث نقل کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تفترق امتی علی بضع و سبعین فرقۃ اعظمھا فتنۃ قوم یقیسون الدین برأیہم یحرمون بہ ما احل اللہ و یحلّون ما حرم اللہ ۔ (المنار۸: ۲۱۹)

میری امت ستر سے زائد فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سب سے زیادہ فتنہ انگیز فرقہ وہ ہے جو دین کے بارے میں اپنی رائے سے قیاس کرے گا۔ اس طرح وہ اللہ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دے گا۔

قَالَ فَاہۡبِطۡ مِنۡہَا: یہ جگہ تواضع اور بندگی کی جگہ ہے۔ تکبر کی جگہ نہیں ہے۔ لہٰذا ھبوط و نزول اس کے عمل کا ایک قدرتی نتیجہ تھا۔

۴۔ قَالَ اَنۡظِرۡنِیۡۤ: ابلیس نے اگرچہ قیامت تک کے لیے مہلت مانگی تھی مگر اس کو قیامت تک مہلت نہیں ملی، البتہ ایک مدت معلوم تک اسے مہلت دی گئی ہے۔ چنانچہ سورۂ حجر میں فرمایا:

قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ (۱۵ حجر: ۳۶ تا ۳۸)

کہا: پروردگارا! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے۔ فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے۔ معین وقت کے دن تک۔

۵۔ قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ: ابلیس نے مہلت پانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے چیلنج کیا اور کہا: جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی تیرے صراط مستقیم کی گھات میں بیٹھا رہوں گا۔ اس میں ابلیس نے اپنی گمراہی کو اللہ کے ذمے ڈالا کہ تو نے آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر مجھے فاسق کر دیا۔ یہ بھی ابلیسی سوچ ہے کہ اپنے عمل کا خود کو ذمے دار نہ سمجھے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبری عمل تصور کرے۔

ابلیس نے انسان سے انتقام لینے کے لیے یہ قسم کھا لی کہ وہ اللہ کے صراط مستقیم کی گھات میں بیٹھا رہے گا اور لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جایا کرے گا۔ اس مقصد کے لیے وہ انسان کے نفسیاتی ذرائع استعمال میں لاتا ہے۔ چنانچہ وہ خوف، امید، آرزو، خواہشات اور غصہ وغیرہ کے ذریعے انسان پر اپنا تصرف قائم کرتا ہے:

یَعِدُہُمۡ وَ یُمَنِّیۡہِمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا (۴ نساء: ۱۲۰)

وہ انہیں وعدوں اور امیدوں میں الجھاتا ہے اور ان کے ساتھ شیطان کے وعدے بس فریب پر مبنی ہوتے ہیں۔

وہ باطل کو حق کی شکل دیتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ یہی حق ہے اور انسان یہ سوچتا ہے کہ یہ میری اپنی سوچ ہے۔ اس سوچ میں استدلال رکھتا ہوں، جب کہ در اصل ابلیس اس کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر اس کو غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے۔ غفلت اور تساہل ہر جرم و گناہ کے لیے آماجگاہ ہوا کرتی ہیں۔ یہاں سے شیطان اپنے لیے راہ ہموار کرتاہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ ( ۲۶ شعراء: ۲۲۲)

ہر جھوٹے بدکار پر شیاطین اترتے ہیں۔

چنانچہ ابلیس انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے وہی کردار ادا کرتا ہے جو فرشتے صحیح رہنمائی کے لیے ادا کرتے ہیں لیکن قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ انسان پر ابلیس کے تصرفات ایسے نہیں ہیں جو خود انسان کے اپنے تصرفات سے متصادم ہوں۔ مثلاً انسان خود حرام نہیں کھانا چاہتا مگر ابلیس اس کو حرام کھانے پر مجبور کرتا ہو بلکہ وہ انسان کے تصرفات کے پیچھے ایک محرک کے طور پر کام کرتا ہے اور عمل انسان کا اپنا ہوتا ہے، ابلیس اس عمل کا محرک ہوتا ہے۔ لہٰذا شیطان کے بہکانے سے نہ انسان مجبور ہوتا ہے، نہ اس کی خود مختاری مجروح ہوتی ہے۔ چنانچہ صرف جنات میں شیطان نہیں ہوتے بلکہ انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں۔ قرآن میں ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۱۲)

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جن و انس کے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے ۔۔۔۔

انسانی شیطان، جب اپنے پھندے میں آنے والوں کو گمراہ کرتا ہے تو وہ محرک بنتا ہے، دوسروں کو مجبور نہیں کرتا۔ اگر مجبور کرے تو یہ صرف جبر کرنے والے کا عمل شمار ہو گا، مجبور شخص معذور ہو گا۔

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ: مجمع البیان میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ آگے سے ان پر آخرت کو بے اہمیت کر دیتا ہوں، مِنۡ خَلۡفِہِمۡ پیچھے سے مال و دولت جمع کرنے پر لگاتا ہوں اور حقوق کے منع کرنے پر اکساتا ہوں تاکہ وارث کے لیے رہ جائے۔ وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ دائیں طرف سے گمراہی کے شبہات کو خوشنما بنا کر ان کے دین کو بگاڑ دیتا ہوں۔ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ بائیں طرف سے لذتوں سے دلچسپی پیدا کرتا ہوں اور ان کے دلوں میں شہوتوں کو غالب کرتا ہوں۔


آیات 11 - 18