اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَ ہُمۡ لَہَا سٰبِقُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ یہی لوگ ہیں جو نیکی کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں اور یہی لوگ نیکی میں سبقت لے جانے والے ہیں۔

61۔ ربط کلام یہ ہے کہ جن کو ہم نے دنیا میں مال و دولت دے کر مہلت دے رکھی ہے، یہ ان کے لیے بھلائی کا باعث نہیں ہے۔ بھلائی میں سبقت لے جانے والے لوگ وہ ہیں جو اللہ کی نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں، شرک کا ارتکاب نہیں کرتے، اللہ نے جو ان پر فضل کیا ہے اس میں فیاضی کرتے ہیں اور خوف خدا دل میں رکھتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ اللہ کی رضایت کے لیے نیک اعمال انجام دیتے ہوئے دل میں خوف رکھتے ہیں کہ نہ معلوم میرا یہ عمل صحیح ہے، قبول درگاہ ہے۔ حقیقی بندگی یہی ہے کہ اس کی بندگی کر کے اپنے اس عمل کو ہیچ سمجھے اور بندگی کا حق ادا نہ ہونے پر استغفار کرے۔ چنانچہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کا استغفار کرنا اسی نوعیت کا ہوتا ہے۔

وَ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا وَ لَدَیۡنَا کِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ اور ہم کسی شخص پر اس کی قوت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے اور ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو حقیقت بیان کرتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔

62۔ اللہ تعالیٰ خود اس انسان کا خالق ہے، وہی اس کی طاقت و قابلیت سے خوب واقف ہے۔ اسی کے مطابق اس پر ذمہ داری ڈالتا ہے اور اس کی استطاعت سے زیادہ اس پر ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ اگر کسی حکم میں کوئی ایسا امر عارض ہو گیا جو مکلف کی طاقت سے باہر ہے تو اس حکم کی نفی ہو جاتی ہے۔ مثلاً حکم تو ہے اٹھ کر نماز پڑھنے کا، لیکن اٹھنا ممکن نہ ہونے کی صورت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا حکم اٹھ جاتا ہے اور بیٹھ کر نماز پڑھنا کافی ہے۔

اس کے بعد فرمایا: ہمارے پاس تمام اعمال کے لیے ایک ایسی کتاب ہے جس میں اعمال درج ہو جاتے ہیں اور کسی کا کوئی عمل ضائع نہیں ہوتا۔

بَلۡ قُلُوۡبُہُمۡ فِیۡ غَمۡرَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا وَ لَہُمۡ اَعۡمَالٌ مِّنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ ہُمۡ لَہَا عٰمِلُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ مگر ان (کافروں) کے دل اس بات سے غافل ہیں اور اس کے علاوہ ان کے دیگر اعمال بھی ہیں جن کے یہ لوگ مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔

63۔ یعنی کافروں کے دل مِّنۡ ہٰذَا مذکورہ نیک عمل سے غافل ہیں اور نیک اعمال کی جگہ وہ دیگر اعمال زشت کے مرتکب ہوتے ہیں۔

حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذۡنَا مُتۡرَفِیۡہِمۡ بِالۡعَذَابِ اِذَا ہُمۡ یَجۡـَٔرُوۡنَ ﴿ؕ۶۴﴾

۶۴۔ حتیٰ کہ جب ہم ان کے عیش پرستوں کو عذاب کے ذریعے گرفت میں لیں گے تو وہ اس وقت چلا اٹھیں گے۔

64۔ حق و حقیقت سے زیادہ تر وہ لوگ غافل رہتے ہیں جو دنیا کے ناز و نعمت کے تاریک پردوں کے پیچھے زندگی گزارتے ہیں۔

لَا تَجۡـَٔرُوا الۡیَوۡمَ ۟ اِنَّکُمۡ مِّنَّا لَا تُنۡصَرُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ آج مت چلاؤ! تمہیں ہم سے یقینا کوئی مدد نہیں ملے گی۔

قَدۡ کَانَتۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تَنۡکِصُوۡنَ ﴿ۙ۶۶﴾

۶۶۔ میری آیات تم پر تلاوت کی جاتی تھیں تو اس وقت تم الٹے پاؤں پھر جاتے تھے۔

مُسۡتَکۡبِرِیۡنَ ٭ۖ بِہٖ سٰمِرًا تَہۡجُرُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ تکبر کرتے ہوئے، افسانہ گوئی کرتے ہوئے، بیہودہ گوئی کرتے تھے۔

67۔ مُسۡتَکۡبِرِیۡنَ ٭ۖ بِہٖ میں بِہٖ کا مرجع النکوص ہے۔ بعض کے نزدیک قرآن ہے، یعنی قرآن سے سرکشی کرتے ہوئے۔ سٰمِرًا : رات کو خوش گپی کرنا۔

اَفَلَمۡ یَدَّبَّرُوا الۡقَوۡلَ اَمۡ جَآءَہُمۡ مَّا لَمۡ یَاۡتِ اٰبَآءَہُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۫۶۸﴾

۶۸۔ کیا انہوں نے اس کلام پر غور نہیں کیا یا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے پہلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی؟

اَمۡ لَمۡ یَعۡرِفُوۡا رَسُوۡلَہُمۡ فَہُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ ﴿۫۶۹﴾

۶۹۔ یا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ اس کے منکر ہو گئے ہیں؟

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ بِہٖ جِنَّۃٌ ؕ بَلۡ جَآءَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ اَکۡثَرُہُمۡ لِلۡحَقِّ کٰرِہُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ یا وہ یہ کہتے ہیں: وہ مجنون ہے؟ نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔