آیت 62
 

وَ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا وَ لَدَیۡنَا کِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ اور ہم کسی شخص پر اس کی قوت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے اور ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو حقیقت بیان کرتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا نُکَلِّفُ: خیرات کی طرف سبقت لے جانے کے لیے جن اعمال کا ذکر ہوا ہے ان کی بجا آوری کے لیے ہم ان بندوں کی طاقت سے زیادہ تکلیف عائد نہیں کرتے۔ اگر اٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا ہے تو بیٹھ کر پڑھے۔ یہ بھی ممکن نہیں ہے تو آنکھوں کے اشارے سے پڑھے۔

مسلمانوں کا ایک کلامی مذہب یہ ہے کہ ناممکن چیز کی ذمے داری دینا درست ہے۔ کہتے ہیں: ایسا واقع ہوا بھی ہے کہ ابو لہب کو ایمان لانے کا حکم ہے جب کہ علم خدا میں ہے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا۔ لہٰذا اس کا ایمان لانا غیر ممکن ہے۔ اس کے باوجود اسے ایمان لانے کا حکم ہے۔

جب کہ علم خدا سے جبر لازم نہیں آتا۔ اللہ کو علم ہے کہ ابو لہب اپنے اختیار سے ایمان نہیں لائے گا۔ ظرف علم یہ ہے کہ وہ اپنے اختیار سے ایمان نہیں لائے گا۔ اگر ان لوگوں کا مذکورہ استدلال مان لیا جائے تو تمام شرعی احکام ناممکن ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اللہ کو علم ہے کہ فلاں شخص ایک مؤمن کو قتل کرے گا لہٰذا قتل نہ کرنا اس کے لیے ناممکن ہے۔ عمر خیام کی طرف منسوب ہے۔

می خوردن من حق ازل میدانست

گر مئی نخورم علم خدا جہل بود

میرا شراب پینا اللہ تعالیٰ ازل سے جانتا ہے۔ اگر میں شراب نہ پیوں تو علم خدا جہل ہو جائے گا۔

جب کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ یہ شخص اپنے اختیار سے شراب پیئے گا۔یہ بھی اللہ کے علم میں ہے کہ شراب نہ پینا، قتل نہ کرنا اس کے لیے ممکن تھا۔

یہ بات اس قدر واضح البطلان ہے کہ آج کل کی روشن دنیا میں وہ اس بات کا پرچار نہیں کرتے۔ اس میں وہ اپنی خفت محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے مقدمہ میں اس لطیفے کا ذکر کیا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ حج آیت ۷۸۔

یہ مقولہ بھی مشہور ہے:

العدل والتوحید علویان و الجبر و التشبیہ امویان ۔

عدل اور توحید، علوی مکتب ہے۔ جبر اور تشبیہ اموی مکتب ہے۔

۲۔ وَ لَدَیۡنَا کِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ: اس کتاب سے مراد نامہ اعمال ہے جس میں ہر عمل ثبت ہوتا ہے اور قیامت کے دن یہ نامہ اعمال ہر اس حقیقت کو بیان کرے گا جو مکلف سے صادر ہوئی ہے۔

لَدَیۡنَا ’’ہمارے پاس‘‘ کی تعبیر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے۔ اس میں کسی قسم کی زیادتی اور نقص کا امکان نہیں ہے۔ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ’’ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘ اس پر تاکید ہے کہ ہر شخص کو اپنے عمل کے مطابق جزا دی جائے گی۔


آیت 62