موجودہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ


بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

158۔موجودہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ ”نظریۂ کفارہ“ ہے کہ ابن اللہ نے یا خود اللہ نے سولی چڑھ کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے سب گنہگاروں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ یعنی بجائے اس کے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے کفارہ ادا کرتے خود اللہ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر کفارہ ادا کیا (البتہ اپنے بیٹے کی شکل میں آ کر جو نظریہ وحدت در تثلیث کے تحت خود اللہ ہے) یہودی اور مسیحی دونوں اتفاق کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام قتل ہو گئے۔ اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام قتل نہیں ہوئے: ٭خود مسیحیوں کے ایک قدیم فرقے ”سلیدیہ“ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ یسوع کی جگہ اشتباہاً ”شمعون کرینی“ کو سولی چڑھا دیا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جسم و روح سمیت آسمان پر اٹھا لیا گیا۔٭ حضرت مسیح علیہ السلام کو سزائے موت سلطنت روم کی عدالت سے ملی۔رومی اجنبی سپاہی مسیح علیہ السلام کو پہچانتے نہیں تھے، اس لیے ایک منافق ”یہودا“ کا سہارا لیا گیا۔ (انجیل 18:3) جب یہ پلٹن اور پیادے وہاں پہنچے تو یسوع نے ان سے پھر پوچھا: تم کسے ڈھونڈ رہے ہو؟ وہ بولے: یسوع ناصری کو۔ یسوع نے جواب دیا: میں تم سے کہ چکا ہوں کہ میں ہی یسوع ہوں۔ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ رومی سپاہیوں کو مسیح علیہ السلام کی شناخت نہیں تھی۔ ٭انجیل برنابا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف زندہ اٹھانے کا واقعہ پوری صراحت کے ساتھ درج ہے۔