آیات 25 - 31
 

اَنَّا صَبَبۡنَا الۡمَآءَ صَبًّا ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ کہ ہم نے خوب پانی برسایا،

ثُمَّ شَقَقۡنَا الۡاَرۡضَ شَقًّا ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ پھر ہم نے زمین کو خوب شگافتہ کیا،

فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا حَبًّا ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ پھر ہم نے اس میں دانے اگائے،

وَّ عِنَبًا وَّ قَضۡبًا ﴿ۙ۲۸﴾

۲۸۔ نیز انگور اور سبزیاں،

وَّ زَیۡتُوۡنًا وَّ نَخۡلًا ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ اور زیتون اور کھجوریں،

وَّ حَدَآئِقَ غُلۡبًا ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ اور گھنے باغات،

وَّ فَاکِہَۃً وَّ اَبًّا ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ اور میوے اور چارے بھی،

تشریح کلمات

اَبَّا:

( ا ب ب ) الابُّ اس گھاس کو کہتے ہیں جو جانورں کے چرنے کے لیے تیار ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ اَنَّا صَبَبۡنَا الۡمَآءَ: ان آیات میں طعام کی فراہمی کے جن اسباب و علل کو اللہ تعالیٰ نے خلق فرمایا ہے اور ان سے کام لیا گیا ہے ان کا ذکر ہے۔ ان میں سے اہم چیز پانی ہے۔ پانی کو خشکی تک پہنچانے کے لیے قدرت نے جو نظام بنایا ہے وہ نہایت محیر العقل ہے۔ وہ نظام حسب ذیل ہے:

الف۔ سمندر کی شکل میں پانی وافر مقدار میں مہیا فرمایا۔

ب۔ اس وافر پانی پر سورج کی تابش مسلط کر دی۔

ج۔ سورج کی حرارت کی وجہ سے پانی بخارات میں تبدیل ہوا۔

د۔ پانی بخارات میں تبدیل کرتے ہوئے اسے شیرین بنایا ورنہ کھارے پانی سے زمین میں روئیدگی نہ آتی۔ چنانچہ فرمایا:

لَوۡ نَشَآءُ جَعَلۡنٰہُ اُجَاجًا فَلَوۡ لَا تَشۡکُرُوۡنَ﴿﴾ (۵۶ واقعہ: ۷۰)

اگر ہم چاہیں تو اسے کھارا بنا دیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟

ھ۔ ان بخارات سے بادلوں کی تشکیل کی جاتی ہے۔

و۔ ہوا کے ذریعے ان بادلوں کو خشکی کی طرف روانہ کیا جاتا ہے:

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۵۷)

اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوش خبری کے طور اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ابر گراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں

ز۔ پھر ان بادلوں کو گھنا کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بادل ایک دوسرے پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ اس دباؤ کی وجہ سے بخارات دوبارہ پانی میں تبدیل ہو جاتے ہیں:

وَّ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡمُعۡصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا ﴿﴾ ( ۷۸ نباء: ۱۴)

اور بادلوں سے ہم نے موسلادھار پانی برسایا۔

اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے طعام کی فراہمی کے لیے اہم چیز یعنی پانی کی فراہمی کا انتظام فرمایا۔

۲۔ ثُمَّ شَقَقۡنَا الۡاَرۡضَ: دوسری اہم چیز زمین کی روئیدگی ہے۔ خاک میں موجود عناصر اس وقت بیدار اور فعال ہو جاتے ہیں جب ان پر پانی پڑ جاتا ہے:

فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہَا الۡمَآءَ اہۡتَزَّتۡ وَ رَبَتۡ۔۔۔ (۲۲ حج: ۵)

جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو یہ جنبش میں آ جاتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے۔

ممکن ہے آیت میں لفظ اہۡتَزَّتۡ (جنبش) عنا صر کے فعال ہونے کی طرف اشارہ ہو اور لفظ وَ رَبَتۡ عناصر کی ترکیب کی طرف اشارہ ہو۔ ان دو مرحلوں کے بعد اَنۡۢبَتَتۡ کا مرحلہ آتا ہے۔

پانی پڑنے پر خاکی عناصر کا فعال ہونا اللہ کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی ہے۔ چنانچہ پانی پڑنے پر یہ ارضی عناصر بیج کی خواہش کے مطابق جڑ جاتے ہیں، روئیدگی شروع ہو جاتی ہے ، زمین کا شکم چیر کر روئے زمین پر نمودار ہو جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین سر سبز و شاداب ہو جاتی ہے۔

۳۔ فَاَنۡۢبَتۡنَا: پانی اور خاک کے ملاپ کے بعد خاکی عناصر جب بیدار ہو جاتے ہیں تو یہ عناصر زمین میں آنے والے بیچ کی خواہش کے مطابق آپس میں جڑ جاتے ہیں۔

قدرت کی ایک اہم ترین نشانی یہ ہے کہ دانہ جب زیر زمین جاتا ہے اور پانی میسر آنے پر ماحول سازگار ہو جاتا ہے تو اس دانے میں عجیب قسم کا شعور موجود ہے کہ زمین میں موجود مختلف عناصر میں سے صرف ان عناصر کو جذب کرتا ہے جن سے اس دانے کی مطلوبہ چیز ترکیب پاتی ہے۔ اگر یہ بیج گندم کا ہے تو یہ دانہ صرف ان عناصر کو جذب کرتا ہے جن سے گندم کا دانہ وجود میں آتا ہے۔ اگر یہ بیج انگور کا ہے تو اس بیج میں یہ شعور موجود ہے کہ صرف ان عناصر کو جذب کرے جن کی ترکیب سے انگور وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح زیتون، کھجور و دیگر ہزار قسم کے میوہ جات اور دانے عناصر کی ترکیب سے وجود میں آتے ہیں۔ یعنی عناصر کی ترکیب مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف نباتات وجود میں آتے ہیں: یُّسۡقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۴) سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، لہٰذا نبات کا اختلاف پانی کی وجہ سے نہیں ہے۔ ارضی عناصر کی مختلف ترکیبوں کی وجہ سے ہے۔


آیات 25 - 31