آیت 22
 

اِنَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمۡ جَزَآءً وَّ کَانَ سَعۡیُکُمۡ مَّشۡکُوۡرًا﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ یقینا یہ تمہارے لیے جزا ہے اور تمہاری یہ محنت قابل قدر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ ہٰذَا یہ اشارہ جنت کی ان نعمتوں کی طرف ہے جن کا ذکر گزشتہ آیات میں آیا ہے۔

۲۔ کَانَ لَکُمۡ جَزَآءً: پھر ان پاکیزہ ذوات سے خطاب کر کے فرمایا: یہ سب تمہارے لیے جزا اور ثواب کے طور پر ہے۔

۳۔ وَّ کَانَ سَعۡیُکُمۡ مَّشۡکُوۡرًا: یہ سب کچھ بلا استحقاق نہیں ملا کرتا بلکہ تمہاری ان محنتوں کے صلے میں ہے جنہیں تم نے دنیا میں تحمل کیا ہے اور اور یہ اجر، یہ ثواب ان زحمتوں کی قدردانی کے طور پر ہے جو رضائے رب کے لیے تم نے دنیا میں تحمل کی ہیں۔

ایک اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید جب بھی جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے ان کے ساتھ حور العین کا ذکر کرتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں تمام نعمتوں کا ذکر آیاہے، نوعمر خادموں کا بھی ذکر آیا ہے لیکن جنت کی ایک اہم ترین نعمت، حور العین کا ذکر نہیں آیا۔ جناب آلوسی کو بھی روح المعانی میں اس بات کا ذکر کرنا ہی پڑا کہ یہ آیات اہل البیت (علیہم السلام) کی شان میں نازل ہونے کے بقول ان میں حور العین کا ذکر نہیں آیا جب کہ ان میں نو عمر خادموں تک کا ذکر آیا ہے: رعایۃ لحرمۃ البتول و قرۃ عین الرسول۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں ٹھنڈک حضرت بتول (س) کی حرمت کا لحاظ کرتے ہوئے حور العین کا ذکر نہیں کیا گیا۔


آیت 22