آیات 6 - 7
 

وَ لَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَکۡثِرُ ۪﴿ۙ۶﴾

۶۔ اور احسان نہ جتلا کہ (اپنے عمل کو) بہت سمجھنے لگ جائیں

وَ لِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ ؕ﴿۷﴾

۷۔ اور اپنے رب کی خاطر صبر کیجیے،

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَکۡثِرُ: اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کر کے احسان نہ جتلاؤ کہ اگر ان پر عمل کر کے اللہ پر احسان جتلایا گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا تَسۡتَکۡثِرُ اپنے اعمال کو بہت زیادہ سمجھنے لگ جاؤ گے اور یہ آداب بندگی کے خلاف ہے۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خطاب کر کے بندوں کو بندگی کے آداب سکھلائے جا رہے ہیں۔ آداب بندگی یہ ہیں کہ اپنے تواں سے زیادہ عبادت کرنے کے بعد اس عبادت کو خالق کی عظمت و نعمت کے مقابلے میں حقیر سمجھا جائے اور عبادت کا حق ادا نہ ہونے پر استغفار کی جائے۔

اپنے عمل کو زیادہ سمجھنا خود پسندی ہے جو بندگی کے بالکل منافی ہے۔ شیعہ مصادر میں حدیث ہے:

الْمَنُّ یَھْدِمُ الصَّنِیعَۃَ۔ (الکافی۴: ۲۲ باب المن)

احسان جتلانے سے نیکی برباد ہو جاتی ہے۔

دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے: وَ لَا تَمۡنُنۡ کا مطلب عطا ہے کہ کسی کو کچھ دے کر احسان نہ جتلاؤ۔ جیسے لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی۔ (بقرۃ: ۲۶۴) میں بیان ہوا ہے لیکن پہلی تفسیر سیاق کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔

۲۔ وَ لِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ: جب رب کی خاطرصبر کیا جائے تو صبر آسان ہو جائے گا۔ آنے والے حالات نہایت سنگین ہیں اور توحید کی اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے مشکلات کے انبوہ سے ٹکر لینا ہو گی۔ نہایت بے سر و سامانی میں قریش سمیت عرب قبائل کے ساتھ نبرد آزما ہونا ہو گا۔ ان حالات میں آپؐ کا بہترین اسلحہ صبر ہے اور صبر کا سرچشمہ لِرَبِّکَ ہے۔


آیات 6 - 7