آیات 44 - 47
 

وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ اور اگر اس (نبی) نے کوئی تھوڑی بات بھی گھڑ کر ہماری طرف منسوب کی ہوتی،

لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے،

ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ ﴿۫ۖ۴۶﴾

۴۶۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡہُ حٰجِزِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ پھر تم میں سے کوئی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔

تشریح کلمات

تَقَوَّلَ:

( ق و ل ) القول کا باب تفعل ہے جو تکلف یعنی از خود بنانے اور گھڑنے کے معنوں میں ہے۔

الۡوَتِیۡنَ:

( و ت ن ) رگ گردن، اس رگ کو کہتے ہیں جو جگر کو خون پہنچاتی ہے، جس کے کٹ جانے سے انسان مر جاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ تَقَوَّلَ: بالفرض کوئی نبی اگر اپنی طرف سے کوئی کلام گھڑتا تو ہم اسے پوری قوت سے سزا دیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ کر اس سے حیات کا حق چھین لیتے۔

اصل بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کا نبی نہ ہو، از خود دعوائے نبوت کر کے کوئی خود ساختہ کلام پیش کرے تو ایسے شخص کو دیگر مجرمین کی طرح مہلت مل جاتی ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص اللہ کی طرف سے نبوت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد اپنی طرف سے کوئی کلام گھڑ کر پیش کرے تو اسے مہلت نہیں ملتی، فوراً اسے سزا مل جائے گی کیونکہ جسے اللہ نے معجزہ اور دلیل دے کر حجت بنایا ہے وہ بفرض محال جھوٹ بولے تو اللہ کی طرف سے نامزد ہدایت دہندہ، گمراہ کنندہ ہو جائے گا۔ اس کی اللہ ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔

۲۔ فَمَا مِنۡکُمۡ: ایسی صورت میں اس شخص کو بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔

اس آیت سے حدیث غرانیق کا باطل ہونا ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی نبی اگر بعض الا قاویل تھوڑی سی بات بھی گھڑے تو اللہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ حدیث غرانیق میں ایک مکمل جملہ شرک کی بنیاد پر ہے۔ اس قسم کا جملہ نبی سے صادر ہونا ممکن نہیں ہے۔


آیات 44 - 47