آیات 1 - 5
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الاعلی

اس سورۃ مبارکہ کا نام پہلی آیت میں مذکور لفظ الۡاَعۡلَی سے ماخوذ ہے۔

یہ سورۃ مکی ہے آخر میں قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی ﴿﴾ وَ ذَکَرَ اسۡمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی ﴿﴾ میں زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ زکوٰۃ کا حکم مدینہ میں نازل ہوا ہے اس لیے آخری آیات مدنی ہیں لیکن مکی آیات میں بھی لفظ زکوٰۃ کا ذکر ملتا ہے جو مطلق تزکیۂ مال کے معنوں میں ہے۔ البتہ یہاں ایک روایت بھی موجود ہے جس میں زکوٰۃ سے مراد فطرہ ہونے کا ذکر ہے۔ اس روایت کی صحت کی صورت میں یہ آیات مدنی ثابت ہو سکتی ہیں۔

ابتدائی آیات میں اللہ کی خلاقیت کے اہم راز تخلیق و ہدایت کا ذکر ہے کہ خلق کے بعد ہر جاندار میں اس کی بقا و ارتقا کے لوازمات کی ہدایت ودیعت ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن پڑھانے کا ذکر ہے کہ اللہ کا پڑھانا تلقینی نہیں بلکہ تکوینی ہے جو قابل فراموشی نہیں ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾

۱۔ (اے نبی) اپنے رب اعلیٰ کے نام کی تسبیح کرو

الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿۲﴾

۲۔ جس نے پیدا کیا اور توازن قائم کیا،

وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی ۪ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔

وَ الَّذِیۡۤ اَخۡرَجَ الۡمَرۡعٰی ۪ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور جس نے چارہ اگایا،

فَجَعَلَہٗ غُثَآءً اَحۡوٰی ؕ﴿۵﴾

۵۔ پھر (کچھ دیر بعد) اسے سیاہ خاشاک کر دیا،

تشریح کلمات

الۡمَرۡعٰی:

( ر ع ی ) اصل میں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کو کہتے ہیں۔ خواہ غذا کے ذریعے ہو جو اس کی زندگی کی محافظ ہے یا اس کے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعے ہو۔ مرعی چراگاہ کو کہتے ہیں۔

غُثَآءً:

( غ ث و ) اس کوڑا کرکٹ کو کہتے ہیں جسے سیلاب بہا کر لاتا ہے اور یہ ہر اس چیز کے لیے ضرب المثل ہے جسے ضائع ہونے دیا جائے تو اس کی کچھ پرواہ نہ کی جائے۔

اَحۡوٰی:

( ح و ی ) سیاہ، مائل بہ سبزی۔

تفسیر آیات

۱۔ اے رسول! اپنے رب کی تسبیح کرو۔ یعنی اسم خدا کو ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک قرار دو۔ اللہ کے اسم کی طرف عاجزی، جہالت، ظلم اور جبر کی نسبت نہ دو یا اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خلق، رزق، موت و حیات کا اختیار دینے والی باتیں نہ کرو یا اللہ کے ساتھ کسی اور کو رب کہہ دینا بھی تسبیح کے خلاف ہے چونکہ اس قسم کی باتیں توحید کے خلاف ہیں اور جو توحید کے خلاف ہے وہ اللہ کی تنزیہ و تقدیس کے خلاف ہے۔ سب سے زیادہ اللہ کی تنزیہ و تقدیس کے خلاف شرک ہے۔ لہٰذا جب اللہ کا نام لو تو شرک کے بغیر لو:

وَ اِذَا ذَکَرۡتَ رَبَّکَ فِی الۡقُرۡاٰنِ وَحۡدَہٗ وَلَّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ نُفُوۡرًا﴿﴾ (۱۷ بنی اسرائیل: ۴۶)

اور جب آپ قرآن میں اپنے یکتا رب کا ذکر کرتے ہیں تو وہ نفرت سے اپنی پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔

۲۔ رَبِّکَ: جسے آپ نے اپنا رب تسلیم کیا اس کے نام کی تسبیح کرو۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے: اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو رب تسلیم نہ کرو چونکہ تسبیح عبادت ہے اور عبادت صرف رب کی ہوتی ہے۔

۳۔ الۡاَعۡلَی: اس رب کے اسم کی تسبیح کرو جس کی بلندی وصف و بیان کی حد سے بڑھ کر ہے۔ یہاں بھی الۡاَعۡلَی کے معنی بیان کرتے ہوئے ’’سب سے بلند‘‘ کہنا درست نہیں ہے، جس طرح اللّٰہ اکبر میں ’’سب سے بڑا‘‘ کہنا درست نہیں ہے۔ چونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلوقات کے ساتھ موازنہ لازم آتا ہے جو بذات خود تقدیس و تسبیح کے منافی ہے۔

۲۔ الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی: تخلیق کے ساتھ توازن اور تناسب قائم کیا۔ چنانچہ اس کائنات میں کوئی شے کسی شے سے متصادم نہیں ہے۔ یہ کائنات اپنے حسن و جمال میں ایسی شکل میں ہے کہ اس سے بہتر قابل تصور نہیں ہے۔ جیسے فرمایا:

الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ۔۔۔۔ (۳۲ سجدہ: ۷)

جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا۔

چنانچہ انسان، حیوانات، نباتات، اجرام سماوی، کل کائنات اسی تناسب اور توازن پر قائم ہے۔ عناصر کے توازن کے بغیر کوئی پودا نہیں اُگ سکتا اور خلیوں کی باہمی ہم آہنگی کے بغیر کوئی مخلوق وجود میں نہیں آ سکتی۔ چنانچہ توازن بحسب زمان خلقت کے ساتھ اور خلقت کے بعد بھی ہے۔ البتہ بلحاظ رتبہ خلقت پہلے، توازن بعد میں ہے۔

۳۔ وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ: اس رب کی تسبیح کرو جس نے تقدیر سازی کی۔ صرف تخلیق نہیں بلکہ اس کے ساتھ اس کے لیے منصوبہ بندی کی اور ہر مخلوق کی حدود و قیود کا تعین کیا۔ اس کی ذات و صفات اور افعال کے لیے قانون اور دستور وضع کیا جس سے تجاوز کرنا ممکن نہ ہو۔ تقدیر کے موضوع پر اس سے پہلے کئی بار گفتگو ہو گئی ہے۔

۴۔ فَہَدٰی: ہر مخلوق کے لیے آئندہ کی منصوبہ بندی کے ساتھ اس میں آئندہ اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے اصول و ضوابط اور لوازم کے حصول کی ہدایت بھی ودیعت فرمائی اور عبودیت و بندگی کے تقاضے بھی اس کی فطرت میں ودیعت فرمائے۔

۵۔ الۡمَرۡعٰی: اپنے اس رب کی تسبیح کرو جس نے چارہ اگا کر تمہارے لیے متاع حیات فراہم کیا:

مَّتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِاَنۡعَامِکُمۡ ﴿﴾ (۸۰ عبس: ۳۲)

جو تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے سامان زیست ہیں۔

۶۔ فَجَعَلَہٗ غُثَآءً اَحۡوٰی: یہ اللہ کی قدرت و تدبیر کا ایک نمونہ ہے جس چیز کو سرسبزی بخشی ہے وہی چیز دوسرے وقت خس و خاشاک، بے قیمت ہو جاتی ہے۔ پس قیمتی بنانے اور بے قیمت کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔


آیات 1 - 5