آیات 6 - 7
 

سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۙ﴿۶﴾

۶۔ (عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے،

اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّہٗ یَعۡلَمُ الۡجَہۡرَ وَ مَا یَخۡفٰی ؕ﴿۷﴾

۷۔ مگر جو اللہ چاہے، وہ ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو یقینا جانتاہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لی ہے۔ لہٰذا قرآن کے تحفظ کا اولین مرحلہ یہی ہے کہ جس ہستی کے سینے پر قرآن نازل کیا جا رہا ہے اس سینہ میں وہ حفظ ہو جائے اور عدم نسیان اس کا لازمہ ہے۔ ہم نے پہلے بھی کئی بار اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی اپنے حواس ظاہری کے ذریعے وصول نہیں کرتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی اپنے پورے وجود کے ساتھ وصول فرماتے تھے۔ اپنے وجود کو بھولا جا سکتا ہے نہ اس میں غلطی سرزد ہو سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن تکویناً پڑھایا ہے، تکوینیات میں اللہ کا حکم فوری نافذ ہوتا ہے اور اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔

لہٰذا صحیح بخاری کی وہ روایت صریحاً قرآن کے خلاف ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک آیت کی فراموشی کی نسبت دی گئی ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں آیہ مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ۔۔۔۔ بقرہ آیت ۱۰۶ کے ذیل میں ابن عباس کی طرف نسبت دی ہے:

کان مما ینزل علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الوحی باللیل و ینساہ بالنھار۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی میں کچھ وحی ایسی بھی تھی جو رات کو نازل ہوتی تھی اور دن کو بھول جاتے تھے۔

یہ روایت بھی قرآن کی نص صریح کے خلاف ہے۔

۲۔ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ: کا استثنا صرف اس بات کا اظہار ہے کہ اگر اللہ اس وحی کو قلب رسول سے سلب کرنا چاہے تو پھر آپ بھول سکتے ہیں مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیت ۸۶۔ ۸۷ میں فرمایا:

وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا ﴿﴾ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا﴿﴾

اور اگر ہم چاہیں تو ہم نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے وہ سب سلب کر لیں، پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔ سوائے آپ کے رب کی رحمت کے، آپ پر یقینا اس کا بڑا فضل ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے ہوتے ہوئے یہ وحی سلب نہیں ہو سکتی۔


آیات 6 - 7