آیات 17 - 20
 

ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡجُنُوۡدِ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ کیا آپ کے پاس لشکروں کی حکایت پہنچی ہے ؟

فِرۡعَوۡنَ وَ ثَمُوۡدَ ﴿ؕ۱۸﴾

۱۸۔ فرعون اور ثمود کی؟

بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ تَکۡذِیۡبٍ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ بلکہ کفر اختیار کرنے والے تو تکذیب میں مشغول ہیں۔

وَّ اللّٰہُ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ مُّحِیۡطٌ ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔ اور اللہ نے ان کے پیچھے سے ان پر احاطہ کیا ہوا ہے۔

تفسیر آیات

ابتدائی دو آیتوںمیں اللہ تعالیٰ کی گرفت کے شدیدہونے کی ایک دو مثالیں تاریخ کے شواہد کے ساتھ بیان فرمائیں:

جو اپنے وقت کے رسولوں کے مقابلے میں آئے اور ظلم کی انتہا کر دی اور رسولوں نے بھی صبر و استقامت کے ساتھ ان طاغوتی طاعتوں کا مقابلہ کیا پھر کس طرح اللہ نے ان طاغوتوں کو اپنی گرفت میں لیا اور فرعون کو پانی میں غرق کر دیا اور ثمود پر عذاب نازل کر کے نابود کر دیا۔

اے رسول! آپ نے ان کی داستان سن لی ہے تو آپ بھی صبر سے کام لیں۔ آپ کے دشمن کا انجام بھی وہی ہو گا جو فرعون و ثمود کا ہوا۔

۲۔ بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: بلکہ آپ کی قوم میں سے جو لوگ کفر اختیار کر رہے ہیں وہ گزشتہ اقوام سے بدتر ہیں چونکہ گزشتہ اقوام کے سامنے منکرین کے انجام کی عبرتناک داستانیں نہیں تھیں۔ ثانیاً گزشتہ اقوام نے تکذیب کی اور آپ کی قوم پر تو تکذیب نے احاطہ کیا ہوا ہے۔ فِیۡ تَکۡذِیۡبٍ کی تعبیر سے احاطہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

۳۔ وَّ اللّٰہُ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ مُّحِیۡطٌ: اور اللہ نے ان کافروں کو اپنے احاطہ قدرت و علم میں لیا ہوا ہے۔ ان کے سامنے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔


آیات 17 - 20