آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ البروج

اس سورۃ مبارکہ کا نام پہلی آیت میں مذکور لفظ الۡبُرُوۡجِ سے ماخوذ ہے۔

زمان نزول کا تعین کرنا مشکل ہے تاہم مضمون سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں مشرکین کی طرف سے مظالم میں دن بدن اضافہ ہونے کے دوران نازل ہوئی ہے۔

مضمون میں اصحاب الاخدود کا ذکر ہے جنہیں کافروں نے آگ کے گڑھوں میں پھینک دیا پھر بھی انہوں نے اپنے دین سے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ان پر مظالم ڈھائے، ان کا دین کمزور نہ ہوا۔ مشرکین خواہ کتنا ظلم کریں یہ دین کمزور نہ ہو گا۔ قربانیوں سے تحریکوں میں جان آیا کرتی ہے، کمزوری نہیں آتی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے برجوں والے آسمان کی،

وَ الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے،

وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ ؕ﴿۳﴾

۳۔ اور حاضر ہونے والے کی اور اس (دن) کی جس میں حاضری ہو،

تشریح کلمات

الۡبُرُوۡجِ:

( ب ر ج ) کے معنی قصر کے ہیں چونکہ قصر دیگر عمارتوں کی بہ نسبت نمایاں ہوتے ہیں۔ یہاں سے ہر نمایاں چیز کو برج کہا گیا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ الۡبُرُوۡجِ: سے مراد علم ہیئت کی اصطلاح کے بارہ برج لینا قطعی درست نہیں ہے۔ جیسا کہ صاحب المیزان نے بھی کہا ہے چونکہ قرآن آسمان کے ستاروں کو بروج کہتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَ لَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ زَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ ﴿﴾ (۱۵ حجر: ۱۶)

اور بتحقیق ہم نے آسمانوں میں نمایاں ستارے بنا دیے اور دیکھنے والوں کے لیے انہیں زیبائی بخشی۔

۲۔ وَ الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ: اور روز قیامت کی قسم! جو وعدۂ الٰہی کے مطابق یقینی ہے۔

۳۔ وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ: اس آیت کی تفسیر نہایت مشکل اور اقوال تیس سے زیادہ ہیں۔ ہم کسی قول کو اعتنا میں لائے بغیر صرف معصومین علیہم السلام کی احادیث کی روشنی میں اس آیت کی تفسیر کریں گے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے چند ایک طرق سے روایات ہیں۔ بعض میں شَاہِدٍ سے مراد یوم جمعہ فرمایا ہے اور بعض دیگر کے مطابق شَاہِدٍ سے مراد یوم عرفہ ہے۔ بعض دیگر روایات میں ہے: شَاہِدٍ یوم جمعہ، مَشۡہُوۡدٍ یوم عرفہ اور الۡمَوۡعُوۡدِ قیامت ہے۔ (الفقیہ ۱: ۴۶۶،۔الوسائل ۷: ۳۷۸۔ ۱۳: ۵۴۸۔ ۵۴۹)


آیات 1 - 3